پیش کرتا ہوں) اور دیکھو لوط علیہ السلام اہل سدوم کی طرف بھیجے گئے حالانکہ وہ خود سدوم کے باشندہ نہ تھے۔ تو سدوم والے لوط کی پہلی زندگی کے حالات سے کیونکر واقف ہوسکتے تھے؟ پس پیغمبر کی سابق زندگی معیار نبوت نہیں ہوسکتی۔
معیار نبوت کیا ہے؟
معیار نبوت وہ ہے جس پر تمام پیغمبربرابر ترین اور وہ یہ ہے جس کو اﷲ پاک نے بیان فرمایا ہے: ’’وما ارسلنا قبلک الا رجالا نوحی الیہم…… ثم صدقنا ہم الوعد فانجیناہم ومن نشاء واہلکنا المسرفین (انبیائ:۷تا۹)‘‘ یعنی جتنے رسول ہم نے بھیجے جن کو ہم وحی کرتے تھے ان سے جو وعدے ہم نے کئے سچے کئے ان کو ہم نے (مکر کفار سے) بچایا اور جس کو ہم نے چاہا اور منکرین وماکرین کو ہلاک کردیا۔ اس آیت نے بتایا کہ معیار نبوت یہ ہے کہ پیغمبر وحی الٰہی سے جو خبر دیتا ہے جو پیش گوئیاں کرتا ہے وہ حرف بحرف سچی نکتی ہیں، اور کیوں نہ سچی نکلیں۔ وحی تو اﷲ عالم الغیب کرتا ہے۔ اگر پیش گوئیاں اور خبریں جھوٹی ثابت ہوں تو اس کا الزام اﷲ پر آئے گا کہ نعوذ باﷲخدا نے جھوٹ کہا، خدا ہی نے جھوٹا وعدہ کیا والعیاذ باﷲ۔ حالانکہ اﷲ صادق القول ہے، جھوٹ کے شائبہ سے بھی پاک ہے، اﷲ فرماتا ہے: ’’ومن اصدق من اﷲ حدیثا (نسائ:۸۷)‘‘ {اﷲ سے زیادہ باتوں میں کون سچاہے؟} ’’ومن اصدق من اﷲ قیلا (ایضاً:۱۲۲)‘‘{کہہ دو کہ اﷲ سے زیادہ قول میں کون سچا ہے۔}’’قل صدق اﷲ (آل عمران:۹۵) ان اﷲ لا یخلف المیعاد (یوسف:۹)‘‘ {اﷲ وعدوں کا خلاف نہیں کرتا}’’لن یخلف اﷲ وعدہ (حج:۴۷)‘‘ {ہرگز اﷲ وعدہ خلاف نہ کرے گا۔} غرض اس مضمون کی آیتیں بہت ہیں۔
حضرت یونس کا وعدہ
امت مرزائیہ کہتی ہے کہ اﷲ نے یونس علیہ السلام سے ان کی قوم کو ہلاک کردینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ہلاک نہیں کیا، دوسرے لفظوں میں مرزائیوں کے نزدیک خدا نے اپنے پیغمبر سے صریح جھوٹ بولا، پناہ بخدا، پناہ بخدا، آسمان کیوں نہیں پھٹ پڑتا، زمین کیوں نہیں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی! اﷲ اکبر، کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم۔
مسلمانو! سنو، حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید میں چار جگہ آیا ہے۔ سورہ یونس، سورہ انبیاء اور سورہ قلم میں اختصار کے ساتھ ہے اور سورہ صافات میں قدرے تفصیل سے، لیکن کہیں بھی اﷲ کا وعدہ حضرت یونس علیہ السلام سے ان کی قوم پر عذاب بھیجنے کا مذکور نہیں ہے۔