قرآن… اس باب میں اپنا کوئی ہمسر نہیں رکھتا۔ یہ بزرگی اس کے حصہ میں آئی۔ اس سے پیشتر ہر آنے والے نے اپنے وقت میں یہی کہا ہے کہ ’’اس کے بعد اک اور کلام آئے گا جو رب کی باتیں پوری کرے گا۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خدا نے فرمایا: ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا۔‘‘ (استثنائ) اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی کہا ہے: ’’لیکن وہ‘ فار قلیط‘ (احمدؐ) پاکیزگی کی روح ہے‘ جسے باپ (خدا) میرے نام سے بھیجے گا۔ وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا اور سب باتیں جو میں نے تم سے کہی ہیں تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۴،۲۶) ’’اور وہ فار قلیط (احمد) آکر دنیا کو گناہ سے راستی اور عدالت سے قصور وار ٹھہرائے گا۔ گناہ اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے۔ …میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تم سے کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آئے گی تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی۔ اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی‘ لیکن جو کچھ سنے گی سو کہے گی‘ میری بزرگی کرے گی۔‘‘
اور اس کا پڑھنا، پھر جب ہم پڑھیں تو اس کے پڑھنے کے ساتھ رہ‘ پھر بے شبہ ہم پر ہے اس کو کھول کر بتانا (سورہ قیامۃ)}
دیکھو ہر ایک نے اپنے کلام نا تمام بتایا اور ایک اور آنے والے کا پتہ دیا، مگر بالآخر جب وہ موعود الامم ﷺ آیا تو اس نے اعلان کیا: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی‘‘ رب کی باتیں (دین) آج پوری ہوگئیں اور ساری سچائی کی راہ بتا دی گئی۔ قرآن نے اس لئے نہ کسی اپنے بعد میں آنے والے کی نسبت کوئی پیشین گوئی کی نہ کسی نئے کلام کے نزول کی خبر دی نہ کسی نئی شریعت کا منتظر کیا۔ کہ تکمیل کار کے بعد کسی نئے آنے والے کسی نئے کلام کسی نئی شریعت کا موقع کہاں؟
اور جب قرآن آخرین صحیفہ آسمانی قرار پایا اور تکمیل کار کا اعلان ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امام الصحف کی بقائے ابد اور حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لے لی۔ فرمایا: ’’ان نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (حجر)‘‘ ہم نے اس نصیحت کی کتاب کو اتارا اور بے شبہ ہم ہیں اس کی حفاظت کرنے والے۔
پھر یہی وعدہ الٰہی ایک دوسری آیت میں یوں دہرایا گیا: ’’انا علینا جمعہ اور اس کا پڑھنا، پھر جب ہم پڑھیں تو اس کے پڑھنے کے ساتھ رہ‘ پھر بے شبہ ہم پر ہے اس کو کھول کر بتانا (سورہ قیامۃ)}