میں مجھے ہلاک کردے…مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو وہ مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو ہلاک کر مگر انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ مہلک امراض سے…میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھالے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کردے۔ اے میرے پیارے مالک تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۔ (الراقم عبداللہ الصمد مرزا غلام احمد، المسیح موعود عافاہ اﷲ وایدہ، مرقومہ یکم ربیع الاوّل۱۳۲۵ھ موافق ۱۵؍اپریل۱۹۰۷ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
مرزا قادیانی کی یہ دعا اس انداز سے قبول ہوئی کہ ایک ہی سال بعد یعنی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزاقادیانی کی موت واقع ہوگئی (اور وہ وبائی ہیضہ سے جس کا ذکر انہوں نے اپنی اس دعا میں جھوٹے کی علامت کے طور پر کیا ہے اور قدرتی طور پر اس کی توقع وہ مولانا ثناء اللہ کے لئے رکھتے تھے)
مولانا ثناء اللہ صاحب اب بھی زندہ سلامت مو جود ہیں اور دین حنیف کی خدمت کررہے ہیں قادیانی ٹولے کے مکروفریب سے مسلمانوں کو بچا رہے ہیں۱؎۔
مرزا قادیانی کو معلوم تھا کہ ان کے پاس اپنی نبوت کی نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی ایسی چیز ہے جسے کسی حد تک بھی دلیل کہا جاسکے۔ پنجاب میں جب ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی تو انہوں نے اسے سادہ لوح اور جاہل عوام کو اپنے دام میں پھنسانے کا ایک عمدہ موقع تصور کیا اور دعویٰ جڑ دیا کہ ان پر وحی ہوئی ہے کہ اس طاعون سے وہ شخص محفوظ رہے گا جو خالصاً دل سے ان پر ایمان رکھے گا یا کم از کم ان کی ایذاء رسانی اور مذمت سے باز آئے گا اور دل سے ان کی عظمت کا قائل ہوگا۔ (ملاحظہ ہو ’’تعلیمات مسیح موعود‘‘ شائع کردہ قادیانی گروہ)
یہ دعویٰ انہوں نے اس لئے کیا کہ سادہ لوح اور غبی قسم کے لوگ جو ہر اس شخص کی دھمکی
۱؎ مصنف کی یہ تحریر غالباً ۱۹۴۸ء سے پہلے کی ہے کیونکہ اس وقت تک مولانا ثناء اللہ واقعی زندہ سلامت تھے اور دین حنیف کی خدمت کررہے تھے، مولانا کی وفات ۱۹۴۸ء میں یعنی آنجہانی مرزا کے مرنے کے ۴۰ سال بعد ہوئی۔ قدس اﷲ روحہ (مترجم)