پارلیمنٹ کی مباحثوں کی سرکاری رپورٹ سے میں اب اچھی طرح جان گیا ہوں۔ کہ وہ وحشیانہ سنگدلانہ بے رحمی ان کی رگوں میں بہنے والے خون کے ہر ذرہ میںداخل ہے اور پکی طرح ان کی ہڈیوں کے گودے میں بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں بعض ان انسانی ہستیوں کے جنرل ڈائر کے خون آلود کارناموں کو بطور اعلیٰ درجہ کی بے رحمی کے سراہا۱؎ ہے۔
اسی کے سلسلہ میں انگلستان کی عورتوں میں بھی خون آشام خونخواری کی باغیانہ علامات پر مجھ کو بے انتہا دھکا لگا۔ وہ وقت آگیا ہے کہ ہم کو پوری طرح سے مان لینا چاہئے کہ برٹش گورنمنٹ اور برٹش لوگوں سے کسی قسم کی کوئی امید نہ رکھنی چاہئے۔ ان سے کسی قسم کی توقع نہ رکھنی اپنی توہین کرتی ہے۔ ہم اب تک اس امید کے فریبی آسیب کے نشہ آور جادو میں مبتلاء رہے کہ وہ دینگے اور ہم لیں گے۔ ان کا کام دینا تھا۔ اور ہم بھکاری۔ لیکن ہم درحقیقت خوش قسمت ہیں کہ وہ عطا یا کے قابل ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ عطیات کمزوروں کو بہ نسبت دھوکہ بازی کے دیریا سویر برباد ہی کردیتے ہیں۔ اگر ہم مضبوط ہوتے۔ اگر ہم طاقت ور ہوتے تو قبول عطیات کو ہم کو چھوٹا نہ بناتے۔ ہماری روحوں کو خراب نہ کرتے۔ ہر بڑی قوم دوسروں سے عطیات قبول کرتی ہے۔ یہ مثل ٹیکس وصول کرنے کے ہے۔ بھرا ہوا ہمیشہ بھر جاتا ہے۔ بادشاہ ہمیشہ وصول کرتا ہے مگر بھکاری کبھی نہیں۔ تو ہمارے لئے اس سے موت بہتر ہے کہ ہم انگریز جیسے لوگوں سے بخشیش حاصل کرنے کو ہاتھ پھیلائیں۔
۱؎ قتل عام کے دام۔ اس کے پنجاب (ہند) کے ہزاروں غیر مسلح بے پناہ بے قصور مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی کامیاب کارروائی کی وجہ سے (فرقہ احمدیہ کامرکز جنرل ڈائر کو اس کی عمر درازی کے لئے کافی انعام مل چکا ہے۔ مارننگ پوسٹ کی خبر کے بموجب انگریزوں نے ۱۶ ہزار پونڈ سے زائد ایک فنڈ کھولا ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان کے مالیہ سے ڈائرکو۶۵۰ پونڈ سالانہ ملے گا۔ اس وقت کے بعد پنشن پر وہ ۸۰ پونڈ سالانہ کی پنشن کا مستحق ہوگا۔
کوئی تعجب نہیں کہ سلطنت برطانیہ میں بیشمار قاتل اور پھانسی دینے والے پھرتے ہیں۔ برٹش پارلیمنٹ اخبارات اور پبلک نے ڈائر کو بطور بطل وقت کے سراہا ہے اور اس کے ہندوستانیوں کے خون میں ہاتھ رنگنے کے کام پر اپنی مہر پسندیدگی ثبت کردی ہے وہ کہتے ہیں یہ تورات کی غلطی تھی اور ہندوستانیوں کے جانوں کے مال کی جرمانہ میں حکومت برطانیہ قاتل کی جیب بھرنے کے لئے لوگوں سے کھینچ رہی ہے۔