مسجد کی تعمیر کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ ’’ایماندار کے لئے خدا کا ایک گھر اور دوسرے مذہب والوں کے لئے ایک بیت العلم دیا جائے۔ لیکن یکا یک ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک مصری نے تقریر کی اجازت مانگی اور وہ یہ ثابت کرنے کے لئے تیار تھا کہ احمدی انگریزوں کے تنخواہ دار ہیں اور مسجد انگریزی روپیہ سے بنائی جارہی ہے۔ مخالف کو خوشی منانے کی جگہ سے ہٹالے جانے کے لئے ایک پولیس مین کو بلانے کی وجہ سے یہ خلاف امید نظارہ ختم ہوگیا جو جرمن موجود تھے وہ فوراً رسم کی جگہ سے چلے گئے۔ کیونکہ ان کی رائے یہ تھی کہ جرمنی دلچسپی اور ہمدردی آج کل مظلوم اقوام کی طرف ہونی چاہئے اور رسم میں مدد کرنا بطور شان بڑھانے والوں کے ایک ایسے مقصد میں جو ان لوگوں کی تحریک آزادی کیخلاف ہو جن کو انگلستان نے ستا رکھا ہے اور جن کے ممبر برلین میں رہ رہے ہیں۔ جرمنوں کی شان کے خلاف ہے۔
بدقسمتی ہے سرکاری جرمن نمائندے جو اس رسم میں شریک تھے۔ اس خیال کے نہیں معلوم ہوئے کیونکہ وہ نہ صرف وہاں موجود ہے بلکہ شام کے انتظام کے دوران کہا جاتا ہے کہ ’’جرمن پبلک کی جانب سے ‘‘ اسٹوڈیین ڈائریکٹر ڈاکٹر شوئمبس نے تقریر بھی کی۔ یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ صاحب کسی صورت سے بھی برلین آبادی کی طرف سے پیش ہونے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اسی اثناء میں یہ عیاں ہوگیا کہ قیصر ڈیم پر یہ مسجد پان انگلش مقصد کہتی ہے۔ اور ہر شخص کو مصری قومی پارٹی کی برلین کمیٹی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمارے پاس حسب ذیل اعلان بھیجا۔
’’احمدی تحریک میں خالص انگریزی نو آبادیات کی سیاست کو عمل میں لانے کے ہندوستانی اور انگریز مجتمع ہوئے ہیں۔ ایسی مذہبی متحد جماعتوں میں سرگرمی سے انگلستان اسلامی دنیا پر زبردست اثر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اچھا ہے احمدیہ پارٹی یا زیادہ موزوں برطانی گورنمنٹ برلین میں ایک مسجد بنائے جس میں پا انگلش تبلیغ (پروپیگنڈہ) کا کام کیا جائے۔ بحیثیت نیشنلسٹ اور مسلمان ہونے کے ہم اس نہایت خطرناک تحریک کے خلاف ہوشیار کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ورنہ ہم سب کے سب جہنم میں پڑیں گے۔
بالکل صحیح ہے اور ہم اس سے کسی حالت میں بھی اتفاق نہیں کرسکتے۔ خصوصاً جب کہ جرمنی کی قسمت میں فرانس کی نو آبادی ہونا لکھا ہے۔