بنانے کی خواہش سے کچھ زیادہ بھی ہے۔ میں نے مسجد کے بنانے کے لئے موافقت میں فیصلہ دیا ہے۔ جیسا کہ ہم کو ایک واقف کار حال سے معلوم ہوا ہے۔ انگلستان کا ہاتھ کام کررہا ہے۔ اس لئے (انگلستان نے) ایک بہت بڑی رقم مسجد کی تعمیر کے چندہ میں دی ہے۔ پس یہ خطرہ کہ سیاست اس معاملہ میں صرف ایک حصہ ہی نہیں بلکہ بیش از بیش حصہ لے رہی ہے۔ اگرچہ ہم انجینئر (ہارمن) کے ان الفاظ کے موافق ہوں کہ ’’خدا ہی کا مشرق ہے اور خدا ہی کا مغرب‘‘ تاہم جا ملک ہمارا ہونے سے اتنی دور نکل گیا ہے کہ اب اور زیادہ برداشت نہیں کرسکتے کہ اجنبی حکومت ہم پر حاوی ہوجائے۔
اگر اسلامی تحقیقات کی جرمن سوسائٹی کے ممبر ڈاکٹر شوئمبس مسجد کی تعمیر کے متعلق زور دار الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ ہم کو لوگوں کے ساتھ اس وقت تک رواداری برتنی اور ان کا اعتبار کرنا چاہئے۔ جب تک کہ وہ کذب بیانی کے مجرم نہ قرار دئیے جائیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم کو یہ عیاں ہے کہ یہ زمانہ جرمنوں کے لئے صداقت مان لینے کا نہیں ہے۔ ہم اس لئے اس غیر سیاسی مسجد کی بنیاد کے خلاف اپنے اظہارات کا حق چھوڑنا نہیں چاہتے۔
داشیشے زینٹنگ۔ ۷؍اگست۔ اشاعۃ صبح
یہ مسجد احمدی فرقہ کی طرف سے بنائی جائے گی جو زیر حفاظت انگلستان کے اسلامی خیالات کو شائع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ احمدیہ فرقہ کے قائم مقام مبارک علی نے زبان اور انگریزی میں مہمانوں کو خوش آمدید کہہ کر مسجد کے اغراض بیان کرکے کہا کہ یہ مسجد تمام دنیا کے اور ہرفرقہ کے مسلمانوں کے لئے خدا کا ایک گھر ہوگی۔ شروع ہی سے دوران تقریر پروہ کئی مرتبہ الفاظ میں ’’پھنس پھس‘‘ سے روکا گیا اور اس نے ختم ہی کیا تھا کہ بہت سے مصری (پوڈیم) مڈیر پر کودے اور ’’جاسوس‘‘۔ انگریزی کرایہ کے کاغل ہوا اور مسجد کو اسلامی تحریک کی قبر ہونا بیان کیا۔ جب تک کہ پولیس نے ان مداخلت کرنے والے کو نہ ہٹایا۔ اس وقت تک رسم کو ملتوی کرنا پڑا۔
جب نظام قائم ہوگیا تو اسلامی تحقیقات کے لئے جرمن سوسائٹی کے ایک نمائندے نے کہا کہ قوم جرمن بحیثیت قوم کے مذہبی تحریکوں کو خوشی سے خوش آمدید کہتی ہے اور اس تحریک کو بھی بڑی سے بڑی ممکن مدد دے گی۔ انگلستان کے اس تعلقات کے متعلق بعض امور اب تک صاف نہیں ہوئے ہیں۔ مسجد کے دو مینار ہوں گے۔ اور رہنے کے لئے مکان۔ مینار ۶۳ میٹر بلند