ملاحظہ ہو:
’’قال یحییٰ بن سعید: بعثني عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ إلی صدقات إفریقیۃ، فاقتضیتھا و طلبت فقراء ، نعطیھا لھم، فلم نجد بھا فقیراً ولم نجد من یأخذھا مني، قد أغنیٰ عمر بن عبد العزیز الناس، فاشتریت بھا رقاباً فأعتقتھم، وولائھم للمسلمین‘‘۔(سیرۃ عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکیم :۱؍۶۵)
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ’’ مجھے امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے افریقہ میں صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا ، میں نے صدقات وصول کئے اور ایسے لوگوں کی تلاش کی جنہیں صدقات دے سکوں ، مگر ایسا شخص نہ ملا جو صدقہ قبول کرے،حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اہل عراق کو (اتنا )غنی کردیا تھا (کہ انہیں صدقہ قبول کرنے کی حاجت ہی نہیں رہی تھی) بالآخر میں نے اس صدقہ سے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا‘‘۔
یہ انتہاء ہے اسلام کے نظامِ کفالتِ عامہ کی ، اس حقیقت سے نظریں چُرا کر مغرب کے قائم کردہ نظاموں کو قائم کرنا ، ان کو رواج دینا بالخصوص ’’نظامِ انشورنس‘‘کو اسلام کے اس کامل نظام کے مقابل کھڑا کرنا ظلم نہیں تو اورکیا ہے؟ انسان کا بنایا ہو ا نظام شاید قانون ساز کی تجوری کو توبھرسکتا ہو لیکن ہر ہر انسان کے لئے وہ مفید و معاون ہو ، ایسا ہونا محال ہے، اس عالمی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قانونِ الہی ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے، کوئی اور نہیں ۔