پر مال دینے کی بدرجہ اولیٰ گنجائش ہو گی۔
کما ھو مذکور في الشامیۃ، ’’قولہ:ولا من یقبلہ مضاربۃ إلخ۔ في البحر عن جامع الفصولین: إنما یملک القاضي اقراضہ إذا لم یجد ما یشتریہ لہ یکون غلۃ للیتیم لا لو وجدہ أو وجد من یضارب لأنہ أنفع…… وما قیل إن مال المضاربۃ أمانۃ غیر مضمون فیکون الإقراض أولیٰ، فھو مدفوع بأن المضاربۃ فیھا ربح بخلاف القرض‘‘۔ج:۴، ص: ۴۸۷۔ (تحریر نمبر:۱، ص: ۵)
ہم کہتے ہیں :
اگرچہ ہم نے فرق قدرے مختلف لکھا تھا لیکن یہاں ہم اسی نکتہ کا جواب دیتے ہیں ، جو اِن دو حضرات نے لکھا ہے۔
وقف کا ناظر یا متولی اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ وقف کے حقوق اور منافع کی دیکھ بھال کر سکے اور صحیح دیکھ بھال وہ اس وقت کر سکتا ہے، جب وہ دوسرے کو اجارہ یا مضاربت پر دے،کیوں کہ اس کی وجہ سے مستاجر یا مضارب پر کچھ رکاوٹ ہو گی کہ وہ کسی قسم کا غَبَن یا دھوکہ نہ کرے اور وقف کو نقصان نہ پہنچائے۔
پھر اجارہ میں یہ تو نظر آیا کہ اس میں اجرتِ مثل کا معیار موجود ہے۔ لہٰذا اگر ناظر یا متولی وقف کی چیز خود بھی اجارہ پر لے لے تو اس سے اجرتِ مثل کے ضابطہ پر عمل کرایا جا سکتا ہے، مضاربت میں ایسا کوئی ضابطہ اور معیار نہیں ہے۔ یہ مضارِب کی دیانت پر ہے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کرے یا غلط طریقے سے، نفع دکھائے یا نقصان دکھائے۔ اگر رب المال علیٰحدہ ہو تو اس کی پوچھ گچھ کے خوف سے کام عام طور سے صحیح ہوتا ہے اور اگر مضارب