سے کی جاتی ہے جو کہ ایک دوسرا مستقل معاملہ ہے‘‘۔
تو اِس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اتنی بات تو ٹھیک ہے ، لیکن اس تلافی کی بنیاد پر چندہ جمع کروانے کے بعد جب نقصان کی تلافی کروالی جائے تو سارا معاملہ ایک بن کے فاسد ہو جائے گا،مثلاً:زید نے بکر کو اِس شرط پر پچاس تولے سونا قرض دیا کہ واپسی پر پچپن تولہ واپس لے گا،اب بوقتِ واپسی زید نے اگر پچاس تولہ سونا ہی لے لیا توپہلی تقدیر کے مطابق اتنامعاملہ تو ٹھیک ہو جائے گااور شرط فاسد ہو جائے گی،لیکن اگر بکر نے پچپن تولے دئیے اور زید نے لے لئے تو یہ سارا معاملہ ایک بن کے فاسد ہو جائے گا، اور سود کہلائے گا،یہاں کوئی بھی نہیں کہے گا کہ ’’چونکہ پچاس تولہ دینے کا معاملہ درست تھا اور شرط فاسد ہو چکی تھی اِس لئے واپسی پر جو پانچ تولے زائددیا گیاوہ اِس شرط کے تحت داخل ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک نیا ہبہ ہے‘‘۔
دوسری بات یہ امر تو اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب اس کو ہبہ اور صدقہ تسلیم کیا جائے ، اوپر ذکر کر دہ تفصیل کے مطابق تو یہ عقدِ معاوضہ ہے ،نہ کہ ہبہ و صدقہ۔ اس لیے کہ ہبہ اور صدقہ کا بلا عوض ہونا شرط ہے، بصورت ِ دیگر یہ مطلقاً ہبہ نہیں بلکہ ہبہ بشرطِ العوض ہو گا جو کہ حکماً بیع ہوتا ہے اور اس پر بیع والے تمام احکامات لاگو ہوتے ہیں ۔
خلاصہ کلام!
یہ کہ تکافل کے تحت ہونے ولا یہ معاملہ پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان عقد ِ معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ سود اور قمار پر مشتمل ہے۔
ھ: نیز!اِسے برادریوں کے درمیان بنائے جانے والے باہمی امدادی فنڈوں کے مشابہ قرار دیا جاتاہے ،جیسا کہ ’’تکافل؛ انشورنس کا اسلامی طریقہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’اسے ناجائز کہنے کی کوئی وجہ نہیں ، یہ ایسا ہے جیسا کہ عام