1:(پہلی بات)اشکال چہارم کے تحت آپ نے میری طرف یہ بات تو درست منسوب کی ہے کہ کمپنی وقف فنڈ کی مضارب نہیں بن سکتی، لیکن اس کی جو وجہ آپ نے میری طرف منسوب کی ہے وہ آپ حضرات کا محض وہم ہے۔ آپ حضرات میری طرف یہ منسوب کرتے ہیں :
’’کیوں کہ فقہائے کرام نے متولی وقف کو صرف اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ مالِ وقف کو اجرت پر دے، مالِ وقف کو اجرت پر دینے کی اجازت منقول نہیں ، نیز! آپ یہ سمجھ رہے ہیں ، اس طرح کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے‘‘۔
میں کہتا ہوں :
میں نے وہ بات نہیں لکھی جو آپ نے میری طرف منسوب کی ہے، بلکہ میں نے یہ لکھا تھا کہ :
’’یہ بات غور طلب ہے کہ فقہاء نے ناظر کے لیے وقف زمین کو (خود) اجرت پر لینے کے جواز کی تصریح کی اور ناظر کے (خود) مضارب بننے کے جواز کی تصریح نہیں کی‘‘۔
2:(دوسری بات)
میرے اعتراض کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ
’’یہ درست نہیں بلکہ اس صورت میں وقف فنڈ کا پول جو کہ شخص قانونی ہے، وہ رب المال ہوتا ہے اور کمپنی مضارب ہوتی ہے، لہٰذا جس خرابی کی وجہ سے آپ ناجائز سمجھتے ہیں وہ یہاں موجود نہیں ۔ تاہم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے اس صورت کے جائز ہونے پر جزم نہیں فرمایا‘‘۔