خدمات کو اجرت پرسر انجام دیتی ہے اور دوسرے وقف فنڈ کے وقف شدہ اور مملوکہ رقموں پر مضارب کے طور پر کام کرتی ہے اور نفع میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے اس طرح سے کمپنی کو ہونے والی آمدنی کی تین جہتیں ہیں ۔
(۱) فنڈ سے متعلقہ خدمات فراہم کرنے پر اجرت
(۲) اپنے سرمایہ کا نفع
(۳) مضاربت میں نفع کا حصہ
’’تکافل یا اسلامی انشورنس کے نظام کی بنیادیں باطل ہیں ‘‘
ہم نے پوری دیانتداری سے اس نظام کا مطالعہ کیا اور اس پر غور و فکر کیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے اس وقف فنڈ کو جن قواعد پر اٹھایا ہے ہم نے ان قواعد کو اس کا ساتھ دیتا ہوا نہیں پایا مولانا مدظلہ نے ان قواعد کو آپس میں جوڑ کر تکافل کا نظام بنایا ہے حالانکہ غیر منقولہ جائیداد میں وہ اگرچہ جڑتے ہیں لیکن خصوصاً نقدی کے وقف میں ان کا جڑنا محل نظر ہے۔ مولانامدظلہ نے مروجہ انشورنس کے اسلامی متبادل کی تحصیل میں تسامح سے کام لیا ہے حالانکہ ضرورت تھی کہ معاشیات کی موجودہ ترقی یافتہ دور میں تکافل کے نظام کی بنیادیں خوب مضبوط ہوتیں ۔
’’پہلی باطل بنیاد‘‘
مولانا تقی عثمانی مدظلہ کا ذکر کردہ پہلا قاعدہ کہ ’’نقدی کا وقف درست ہے ‘‘اور دوسرا قاعدہ کہ ’’واقف اپنی زندگی میں بلا شرکت غیرے اپنے وقف سے خود نفع اٹھا سکتا ہے‘‘ یہ دونوں ہی اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن ان کو جوڑنا درست نہیں مولانا دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
في الذخیرۃ : إذا وقف أرضا أوشیٔا آخر وشرط الکل لنفسہ أو شرط