ہوئی، اُن منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ’’نظام ِ انشورنس ‘‘ بھی ہے جو اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کو ختم کرنے کے لئے وجود میں آیا ، ایک نظر اِس مغربی نظام ِ انشورنس کے مقاصد پر ڈال لی جائے تا کہ اس کے مقابل اسلام کے نظام کفالت کی جامعیت اور افادیت پوری طرح واضح ہو جائے۔
نظام انشورنس کی تباہ کاریاں
نظام انشورنس سماجی اور معاشی تحفظ کا ضامن نہیں بن سکتا، کیوں کہ اِس کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے، اگر کچھ تھوڑا بہت نظر آرہا ہے تو محض اِن ہی افراد کے لئے یہ نظام ہے، جو کمپنی کی پالیسی لیتے ہیں ، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو عام طور پر سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں ، اِس نظام میں ایسے طبقہ یا افراد کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے، جو اُن کے پالیسی ہولڈر نہیں ہیں ، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ، ایسے افراد کو سہارا دینے کا، ان کاساتھ دینے کا،ان کو چلانے کا، گرے پڑے ہوؤں کو اٹھانے کا کوئی پروگرام یا کوئی حصہ نہیں ہے، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ، اِس نظام میں نہ یتیم بچوں کے سروں پر رکھنے کے لئے دستِ شفقت ہے (کیوں کہ ان کا والدپالیسی ہولڈر نہیں تھا)اور اُس بیوہ کے لیے کھانے کے لیے ایک لقمہ کا بھی انتظام نہیں ہے ، جس کا مزدور خاوند بیمہ کمپنی میں اپنا،یا اپنی اس بیوہ کا بیمہ نہ کرا سکا تھا، اِس نظام میں اُن غرباء اور مساکین کے لئے کوئی پالیسی یا انتظام نہیں ہے، جو مکان نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں یا دن بھر مزدوری نہ ملنے کے سبب بھوکے سونے پر مجبور ہیں ، ایسا کیوں ؟؟ اِس لئے کہ وہ بیمہ کمپنی کے ممبر نہیں ہیں ، اُن کے پاس اِن کی اَقساط ادا کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں ۔
مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے، کہ’’ نظام ِ انشورنس‘‘ جس پر آج مغرب فخر کر رہا ہے اور غریبوں کو اپنا محسن ہونا بتا رہا ہے ، جس کے پُر فریب اور