کے علاوہ کچھ مزید متعین رقم بھی لیتے تھے اور وہ اس زائد متعین رقم کے عوض اس بات کی ضمانت دیتے کہ اگر کسی تاجر کا مال ہلاک ہو گیا تو رقم لینے والا اس کی تلافی کرے گا، یہ زائد رقم جو لی جاتی تھی ،اس کو ’’سوکرہ ‘‘کہتے ہیں ۔’’سوکرہ ‘‘کا مطلب بیمہ اور ضمانت (Security) کے ہیں ۔یہ مذکورہ صورت بحری بیمہ (Marine insurance) کی تھی۔علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس صورت پرناجائز ہونے کا حکم لگایا اور فرمایا:
’’والذي یظھر لي أنہ لا یحل للتاجر أخذ الھالک من مالہ لأن ھٰذا التزام ما لم یلزم‘‘۔
(ردالمحتار، کتاب الجھاد،باب المستامن، مطلب مھم فیما یفعلہ التجار…:۶؍۲۸۱، دارعالم الکتب)
ترجمہ:’’میرے نزدیک تاجر کے لیے مال کی ہلاکت کی صورت میں اس کا عوض لینا حلال نہیں ،کیونکہ(تاجر سے زائد رقم لے کر یہ وعدہ کرنا کہ اگر آپ کا مال ہلاک ہوگیاتو اس مال کا عوض میں آپ کو ادا کروں گا) یہ ایک ایسا التزام ہے جو شرعاً لازم نہیں ہوتا‘‘۔
بیمہ کی بدلتی صورتیں
اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ بیمہ کی کئی صورتیں وجود میں آئیں ، مثلاً:عام بیمہ، آگ کا بیمہ، صحت کا بیمہ، زندگی کا بیمہ وغیرہ۔بیمہ کی مذکورہ بالا تمام اقسام جمہور علمائِ امت کے نزدیک ناجائز ہیں ، عدمِ جواز کی وجہ ان صورتوں میں سود ، قمار اور غرر کا پایا جانا ہے۔پھر اس جدید ، ترقی یافتہ دور میں بیمہ کی ضرورت اور اہمیت کی وجہ سے اس کے جائز متبادل کی کوششیں شروع ہوئیں ، اسی تناظر میں ’’تکافل کی شرعی حیثیت ‘‘ کے کلماتِ تشکر میں