کے کاموں کے لیے مثلاً: فقراء کے لیے ہو گا۔
وقف فنڈ کا ممبر بننے کے لیے اس میں ایک خاص چندہ دینا ہو گا، جو ہر نوع کی انشورنس کے مطابق ہو گا۔
یہ وقف فنڈ خود ایک معنوی شخصیت رکھتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ مالک بنتا بھی ہے اور بناتا بھی ہے۔ لہٰذا انشورنس پالیسی لینے والے اس کو جو چندہ دیتے ہیں ، وہ اس کا مالک بن جاتا ہے،پالیسی لینے والوں کونقصان کی تلافی میں بیمہ کی جو رقم ملتی ہے وہ ان کے چندے کا عوض نہیں ہوتی، بلکہ وقف فنڈ کی شرائط کے مطابق اس کے حق دار بننے کی وجہ سے ملتی ہے۔
خود تکافل کمپنی دو طرح سے کام کرتی ہے:
۱۔ وہ وقف کے متولی کی طرح وقف فنڈ کا انتظا م کرتی ہے، یعنی : انشورنس پالیسی لینے والوں سے چندے وصول کرتی ہے، حق داروں کے نقصان کا تدارک کرتی ہے۔اور فنڈ کے علیحدہ سے حسابات رکھتی ہے۔ ان خدمات پر تکافل کمپنی اجرت لیتی ہے۔
۲۔وقف فنڈ کی وقف شدہ اور مملوکہ(چندے کی) رقموں پر وکیل بالاجرت یا مضارب بن کر کام کرتی ہے اور اپنے حصہ کا نفع یا اجرت لیتی ہے۔
تکافل کے نظام کی بنیادیں
مذکورہ بالا تفصیل سے تکافل کے نظام کی جو بنیادیں سامنے آئیں ہیں ، وہ یہ ہیں :
۱۔ منقولہ اشیاء مثلاً: نقدی کا وقف صرف اپنی ذات پر یا دیگر اغنیاء پر جائز ہے، جب کہ بالآخر وجوہِ خیر کے لیے ہو۔
۲۔ وقف کو چندہ دینا ایک مستقل معاملہ ہے اور وقف کے قواعد کے مطابق چندہ دینے والے کا نقصان کی تلافی کا حق دار ٹھہرانا بالکل دوسرا معاملہ ہے، دونوں ایک دوسرے