مرکب ہو جائز ہوتا ہے۔ (جدید معاشی مسائل اور مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے دلائل کا جائزہ، ص: ۱۰۵ تا ۱۰۸)
میں نے تو یہ بتایا تھا کہ مجھے تلفیق کا وجود ہی تسلیم نہیں ، میری عبارت یوں ہے:
’’ (امام ابو یوسفؒ اور امام زفرؒ )ان دونوں کے قولوں کو ملائیں تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ غیر منقولات کا ’’وقف علی الفقراء‘‘ و’’ علی النفس ‘‘جائز ہے، اور منقولات و نقدی کا وقف صرف ’’علی الفقراء‘‘ جائز ہے۔ اس سے تلفیق نہیں بنتی… ‘‘۔(ص:۱۵۹، ایضاً)
لہٰذا آپ کا یہ کہناکہ ’’میں لزومِ تلفیق کی وجہ سے وقف الدراہم علی النفس کو ناجائز کہتا ہوں ‘‘ بالکل بے بنیاد بات ہے، عدمِ جواز کے دلائل میں نے اور دیے تھے، جن سے آپ نے تعرض ہی نہیں کیا۔
دوسرا سُقم:
آپ حضرات نے صفحہ نمبر:۲ پر لکھا ہے:
’’ تکافل علی اساس الوقف میں جو (اصل) مغالطہ (مجھے) لگا ہے، وہ یہ ہے کہ نظامِ تکافل میں شرکاء فنڈ کو واقفین سمجھا گیا اور ان کے چندوں کو وقف سمجھا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ پالیسی ہولڈرز چندہ دیتے وقت عملاً یہ لوگ انتفاع نفس کی شرط لگاتے ہیں ، جس کا مطلب یہ لیا گیا کہ وقف علی النفس……‘‘۔
میں کہتا ہوں :
یہ آپ لوگوں کی محض اپنی اختراع ہے۔ اپنی کتاب (جدید معاشی مسائل) کے صفحہ نمبر: ۹۳ تا ۹۷ میں میں نے خود نظامِ تکافل کی مکمل تفصیل دی ہے۔ اور آپ حضرات نے