ہم کہتے ہیں
یہ تو پہلے سے بدتر صورت ہے اور آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کا مصداق ہے، کیوں کہ مولانا لکھ چکے ہیں کہ :
’’تنشیٔ شرکۃ التامین الإسلامي صندوقاً للوقف وتعزل جزء اً معلوماً من رأس مالھا یکون وقفاً ‘‘
’’اسلامی انشورنس کمپنی اپنے سرمایہ کے ایک حصہ سے وقف فنڈ قائم کرتی ہے‘‘۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کمپنی قائم ہوتی ہے اور وہ اپنے سرمایہ سے وقف فنڈکو قائم کرتی ہے۔
پھر مولانامدظلہ کے بقول کمپنی ایک شخص ِ قانونی ہے، جس میں ڈائریکٹران کی ذاتی شخصیت گم ہو جاتی ہے اور تمام حقوق وذمہ داریوں کی نسبت کمپنی کے شخصِ قانونی کی طرف کی جاتی ہے، لہٰذا کوئی ڈائریکٹر کمپنی کا جو بھی کام کرے گا، اس کو درحقیقت کمپنی ہی کا کرنا کہیں گے۔ اس کا حاصل یہ نکلا کہ کمپنی وقف فنڈقائم کر کے واقف بن گئی۔
اب مولانا کہتے ہیں کہ’’ ایک ڈائریکٹراپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے وقف فنڈ کا متولی بن جائے‘‘۔ لیکن جواب میں ہم کہتے ہیں کہ جب کمپنی کے کام کے اعتبار سے ڈائریکٹر کی ذاتی شخصی کمپنی میں گم ہے اور اس کا کرنا کمپنی کا کرنا ہے تو اس کا حاصل یہ ہوا کہ واقف بننے کے بعد کمپنی اپنے آپ کو ایک نئے معاملہ کے ساتھ متولی بناتی ہے۔ پھر مولانا مدظلہ کی اس تجویز کے مطابق کمپنی ہی خود سے انتظام کے لیے اجرت پر معاملہ بھی کرتی ہے۔ غرض مولانا مدظلہ کی باتوں سے وہی الزام ثابت ہوا جو ہم نے ان پر عائد کیا تھا کہ مولانا نے