عصمت اللہ صاحب کی ’’تکافل کی شرعی حیثیت ‘‘ ۔
جوں جوں اس نظام کو فروغ ملتا گیا ویسے ویسے لوگوں کی طرف سے سوالات بڑھتے گئے، چنانچہ اس نظام کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے (کہ آیا یہ نظام واقعتاً اُن خرابیوں سے اپنا دامن بچا سکا ہے یا نہیں ؟)مطالعہ شروع کیا، پھر میری اس کوشش کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملی، جو مفتی عصمت اللہ صاحب نے اپنی کتاب ’’تکافل کی شرعی حیثیت‘‘کے ’’حرفِ مؤلف‘‘ میں لکھی کہ:
’’جو حل نکالا گیا ہے ، اس کے بارے میں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ قرآن و حدیث کے کسی ’’اصول ِ مقررہ‘‘کے خلاف تو نہیں اور اس میں ایسا کوئی عُنصر تو نہیں پایا جاتا، جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو، اگر اس حل میں ایسی کوئی بات موجود نہ ہو اور وہ حل قواعدِ شرعیہ کے خلاف نہ ہو ، تو وہ جائز حل ہو گااور اس کے مطابق عمل کرنا جائز ہو گا، جسے آج کل کی زبان میں ’’Shariah Complaint‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کے معنی یہی ہیں کہ یہ قرآن و سنت اور اس سے مستخرج و مستنبط،ضوابط و قواعداور اصول کے خلاف نہیں ‘‘۔(ص:13)
نظام ِ تکافل کا انحصار
اس پورے نظامِ تکافل کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ تکافل ’’کمپنی اور شخصِ قانونی ‘‘ کے تصور کے بغیر بالکل ناقص ،ادھورا اور نامکمل ہے ، ان دونوں کا کردار اگر اس نظام میں نہ ہو تو مجوزین حضرات ہی کے بقول اس نظام ِ تکافل سے وہ خرابیاں دور نہ ہوسکیں گی، جو انشورنس میں موجود ہیں اور جن کی بناء پر انشورنس کی حرمت کا