جبکہ تکافل میں حصہ لینے والے کو اِس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے کو کچھ مل رہا ہے یا نہیں ، بلکہ اُس کو تو اپنے جمع کروائے گئے مال سے زیادہ ملنا چاہیے اور بَس !!۔
تیسری خرابی:
نظام تکافل میں اوّلاً کمپنی قائم کی جاتی ہے (جو شخص قانونی ہے)پھر ڈائریکٹرز کچھ مال وقف کر کے وقف فنڈ قائم کرتے ہیں اور واقفین ہونے کے اعتبار سے وقف کے قوانین متعین کرتے ہیں (یہ وقف فنڈ بھی شخصِ قانونی ہے) پھر کمپنی پالیسی ہولڈرز کا مال(جو تجارت میں لگانے کے لیے الگ کر لیا جاتا ہے) اور اسی طرح وقف فنڈ کا فنڈ مضاربت میں استعمال کرتی ہے ،چنانچہ وقف فنڈ ’’رب المال‘‘ ہوا، اور کمپنی ’’مضارب‘‘، اس کے ساتھ ساتھ کمپنی وقف فنڈ کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے بلکہ جملہ معاملات سنبھالتی ہے تو یہ ’’متولی‘‘بھی ہوئی۔مطلب: ’’رب المال‘‘ بھی شخصِ قانونی،’’مضارب‘‘ بھی شخصِ قانونی اور’ ’متولی‘‘ بھی شخصِ قانونی۔(ملخص ازتکافل کی شرعی حیثیت،ص:۷۸،۷۹،ادارۃ المعارف)
اب خارج میں دیکھیں تو اِن قانونی اشخاص کو وجود دینے والے حقیقی افراد ہی کے ذریعے یہ فرضی اشخاص کام کرتے ہیں اور تمام منافع انہی (حقیقی افراد )کی تجوریوں میں جمع ہوتے ہیں تو حقیقت میں جو ڈائریکٹر ز (حقیقی اشخاص ) موجود ہیں ، جنہوں نے یہ سارا نظام چلایا تو ہر قسم کے حقوق انہی کی طر ف لوٹنے چاہئیں ، نتیجتاً انہی حقیقی افراد پر رب المال اور مضارب ہونے کی نسبت صادق آئیگی۔
مزیدوضاحت کے لئے سمجھیں کہ
مجوزین حضرات کے بقول ’’وقف فنڈ‘‘ شخصِ قانونی ہے اور’’ کمپنی ‘‘ بھی شخصِ