تقریظ
حضرت اقدس مولانا مفتی محمد رفیق صاحب بالاکوٹی دامت برکاتہم
نائب مفتی ونگران شعبہ تخصص فی الفقہ والافتاء
واستاذ جامعۃالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن،کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ، مبارکاً علیہ، کما یحب ویرضیٰ، والصلوٰۃ والسلام علی حبیبہ المصطفیٰ، وآلہٖ، وصحبہٖ البررۃ الأتقیاء۔
أما بعد!
کفالت، کفالتِ عامہ اور تکافل کا لغوی استعمال بالعموم اور فقہی اطلاق گاہے بگاہے ملتا ہے۔ کسی کی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لینا یا زیرِ دست لوگوں کی جانی و مالی دیکھ بھال کرناکفالت ہے، اس کا دائرہ کار چند افراد سے معاشرہ تک وسیع ہوجائے تو اس پر کفالتِ عامہ کا اطلاق ہونے لگتا ہے۔
عامۃ الناس اور عامۃ المسلمین کی کفالت کے لیے شریعت نے امت کے اغنیاء پر ایسے مالی وظائف عائد کر رکھے ہیں ، جن سے امت کے فقراء کی کفالت کا نظم قائم ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھی شریعت نے حکومتِ وقت اور عامۃ الناس پر شرعی و اخلاقی فرض کے طور پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ معاشرہ کے ضرورت مند لوگوں کی ضروریات کا بار اپنے ذمہ اُٹھائیں اور ان کی کفالت کریں ، چنانچہ اس شرعی و معاشرتی نظم کے تحت باہمی احتیاجات و ضروریات میں ایک دوسرے کے کام آنے، ذمہ داریوں کو باہمی بانٹنے پر ’’تکافل ‘‘ کا لفظی اطلاق بالکل درست اور بجا ہے۔