جس کے بغیر عام طور پر کوئی انسان نہ اطمینان کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے ، اور نہ ہی اپنے متعلقہ فرائض و حقوق سر انجام دے سکتا ہے، اس نظام کے تحت ملکی و قومی دولت کی گردش کا دائرہ کار چند اغنیاء اور بڑے مالدار لوگوں کے درمیان محدود نہ ہونے پائے کہ دوسرے ان کے رحم وکرم پر ہوں بلکہ اس صورت میں تو اور بھی خصوصیت کے ساتھ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے، کہ معاشرے کے وہ افراد جو مسکین ، محتاج اور نادار ہوں اور کسی طبعی عذر کی وجہ سے معذور ہوں جس کی وجہ سے کوئی معاشی کام کرنے اور اپنے لئے خودروزی کمانے کے قابل نہ ہوں ،یا مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے حالت ایسی ہو گئی ہو تو ایسے ضرورت مند افراد کی ’’معاشی کفالت‘‘ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اسی طرح جو اُن کے عزیز و اقرباء ہیں ، اُن کے ذمہ اِن کی کفالت ہوگی اور معاشرے کے دیگر جومال دار لوگ ہیں وہ صدقات ِ واجبہ و نافلہ اور عطیات سے ایسے افراد کی کفالت کا انتظام کریں گے۔
اسلامی معاشرے کا تصورِ حقیقی
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ:اسلام افراد ِ معاشرہ کے درمیان جس معاشی مساوات کو پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ نہیں کہ معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مال و دولت یکساں اور برابر ہو، جتنی اور جیسی ایک فرد کے پاس ہو اتنی اور ویسی ہی تمام افراد کے پاس ہو، کیونکہ ایسی مساوات ،خیالی دنیا میں تو ہو سکتی ہے، لیکن حقیقت کی دنیا میں نہیں ہو سکتی، اسلام جس مساوات کو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ مال و دولت کی کمی بیشی کے ساتھ ساتھ افراد ِ معاشرہ کے معیار ِ زندگی اور مظاہر ِ معیشت میں زیادہ سے زیادہ یکسانیت اور برابری ہو،لہذٰا اسلام غنی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہِ خدا اور مصارفِ خیر میں خرچ کر کے اللہ تعالی کی خوشنودی اورروحانی عظمت اور اخلاقی برتری حاصل کرے ۔