شرط کی وجہ سے منجملہ موقوف علیہم میں شامل ہونے پر مل رہا ہے،جو کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے عطاء مستقل ہے، اور واقفین کو اس بات کااختیار ہے کہ وقف میں یہ شرط لگائیں کہ اس وقف کے موقوف علیہم وہ لوگ ہوں گے جو اس فنڈ کے رکن ہوں گے۔ چوں کہ یہ شرط کسی شرعی اصول سے متصادم نہیں ہے، اس لیے اسے ناجائزکہنے کی کوئی وجہ یا دلیل موجود نہیں ، جیسا کہ عام طور پر مختلف برادریوں میں اس طرح فنڈز بنائے جاتے ہیں ، لہٰذا اس کو عقدِ معاوضہ کہنا درست نہیں ، عقدِ معاوضہ اس وقت ہوتا کہ چندہ کمپنی مالکان کو دیا جاتا، کمپنی مالکان اس چندہ کے مالک بنتے اور پھر کمپنی مالکان نقصان کی تلافی کرتے۔
اشکال ِ سوم:
جو کہ دوسرے اشکال ہی کی بنیاد پر ہے کہ
’’ زیادہ پریمیم دینے والے کے لیے زیادہ نقصان کی تلافی ہونا اور کم پریمیم والے کے لیے کم نقصان کی تلافی ہونا اسے عقدِ معاوضہ بنا دیتی ہے‘‘۔
جواب:
اس کے جواب کی بنیاد بھی وہی ہے جو دوسرے اشکال کے جواب میں ذکر کی گئی ہے کہ یہ کم یا زیادہ ملنا وقف کے قواعد کی وجہ سے ہے نہ کہ چندہ دہندگان کے کم یا زیادہ پریمیم دینے کی وجہ سے۔ اور یہی جواب دسمبر ۲۰۰۲ء دارالعلوم میں ہونے والے علمائِ کرام کے اجلاس میں دیا گیا جو احقر نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۰۴، ۱۰۵ پر بھی ذکر کیا ہے۔
وضاحت:
احقر کی کتاب ’’ تکافل‘‘ کے صفحہ: ۱۱۴ پر یہ عبارت ہے: