قابل ِ غور امور :
الف:شخصِ قانونی کو شرعی بنیادوں پر تسلیم کرنے والے حضرات فقہی اعتبار سے جملہ پیچیدہ مسائل کا حل شخصِ قانونی کے ذریعے کر لیتے ہیں ، چنانچہ درپیش مسئلہ میں بھی ایسا ہی ہوا، لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِنہی حضرات کے بقول’’ شخصِ قانونی‘‘ بھی زندہ انسانوں کی طرح مالک بننے اور مالک بنانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے،چنانچہ اِسی بنا پر اِ س کو بہت سے معاملات میں عقد کا ایک فریق بھی بنایا جاتا ہے،جیسا کہ تکافل میں بھی وقف فنڈ ( شخصِ قانونی )کو رب المال بنایا جاتا ہے ، بلکہ اب تو عقد کے دونوں فریقوں کی جگہ شخصِ قانونی نے ہی لے لی ہے۔(اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
تو پھر اِس جگہ (نظامِ تکافل میں ) جب پالیسی ہولڈر وقف فنڈ کو چندہ دے کر موقوفٌ علیہم میں داخل ہو جاتا ہے تو اِس سے چندے کا مالک بننے والا وقف فنڈ (جو کہ شخص ِقانونی ہے ) کہتا ہے کہ اگر تم مجھے اتنا چندہ دو گے تو بوقت ِضرورت میں تمہاری اِتنی مدد کروں گا اور اگر تم مجھے اِتنا چندہ دو گے تو میں تمہاری اتنی مدد کروں گا، تو دیکھ لیا جائے کہ یہ معاملہ عقدِ معاوضہ ہونے سے کیسے خارج ہوا ؟!تعجب ہے ایسے شخصِ قانونی پر جو دیگر تمام کام ایک زندہ انسان کی طرح انجام دیتا ہے اور صرف عقدِ معاوضہ کے مسئلے میں مردہ بن جاتا ہے ؟!
ب:اِس جگہ مجوزین حضرات یہ تاویل کرتے ہیں کہ:
’’ چندہ دہندہ کو نقصان کی تلافی کا فائدہ اُس کی کسی شرط کی وجہ سے نہیں مل رہا، بلکہ وہ تو فنڈ کو چندہ دے کر اُس کا رُکن بن گیا ہے، اب اُس کو یہ فائدہ واقفین کی شرط کی وجہ سے منجملہ موقوفٌ علیہم میں شامل ہونے پر مل رہا ہے، جو کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے عطاء ِ