خلاصہ کلام!
’’اسلام‘‘ اپنی تعلیمات کے ذریعے تعاون و تکافل کا وہ اعلیٰ ترین معیارقائم کرتا ہے، جس کی بلندیوں تک آج مذموم سرمایہ دار اور لا دین اشتراکی ذہن رکھنے والے کا تخیل،پرواز ہی نہیں کر سکتا۔ اسلام معاشی کمزوریاں دور کرنے کے لئے اجتماعی کفالت ِعامہ کا جو تصور پیش کرتا ہے اُسے صرف وعظ و تلقین ہی تک نہیں چھوڑا ، اور نہ ہی اسے صرف انفرادی اور اجتماعی وجدان کے رحم و کرم کے سپرد کیا ہے، بلکہ اسلامی ریاست کے امیر المؤمنین کو ذمہ دار بنایا ہے، کہ وہ اس نظام کو عملی جامہ پہنائے اور اس کے احیاء میں آنے والی ہر رکاوٹ دور کرے۔
اسلامی نظامِ تکافل کی حدود و طریقہ کار:
مندرجہ بالا سطور میں یہ بات تفصیل سے گذر چکی ہے کہ کفالت ِ عامہ بنیادی طور پر اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کے تحت اب جائزہ اس بات کا لینا ہے کہ یہ نظام ، ریاست میں بسنے والے صرف مسلمانوں کے لئے ہو گا یا غیر مسلم بھی اس نظام سے مستفید ہوں سکیں گے۔
اور پھر اس نظام کے تحت کس قسم کی ضروریات پوری کی جائیں ؟
ہر انسان کے ساتھ کچھ ضروریات ایسی ہوتی ہیں جو انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہوتی ہیں ،مثلاً:تعلیم،صحت ، تزویج، نومولود بچوں کے وظائف ، معذور افراد کی دیکھ بھال ، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی وغیرہ۔
اس کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیانظامِ کفالت کا سارا بوجھ سرکاری ریاست کے ہی ذمے ہے یا معاشرے کے افراد بھی اس میں شامل ہیں ، چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ افرادِ امت کے ذمہ بھی کچھ مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں لاحق ہوتی ہیں جن میں کچھ