اس کے جواب کے طور پر مولانا تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں :
والظاھر أنہ لا مانع من کونھا متولیۃ للوقف ومضاربۃ في أموالھا في وقت واحد بشرط أن تکون المضاربۃ بعقد منفصل وبنسبۃ من الربح لا تزید عن نسبۃ ربح المضارب في السوق فإن الفقھاء أجازوا لناظر الوقف أن یستأجر أرض الوقف بأجرۃ المثل عند بعضھم وبما یزید علیٰ أجرۃ المثل عند الآخرین۔ (الفتاویٰ الھندیۃ: ۲؍۴۲۱)۔ فیمکن أن تقاس علیہ المضاربۃ وإن لم أرہ في کلام الفقھاء بصراحۃ۔
ترجمہ:ظاہر یہ ہے کہ کمپنی ایک ہی وقت میں وقف فنڈ کی متولی بھی ہو اور اس کے اموال میں مضارب بھی ہو، اس سے کوئی مانع نہیں ہے، جب کہ ایک تو مضاربت کا عقد جدا جدا ہو اور دوسرے کمپنی کا نفع میں حصہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ نہ ہو، کیوں کہ فقہاء نے وقف کے ناظر کے لیے جائز بتایا ہے کہ وہ وقف کی زمین کو خود اجرتِ مثل یا اس سے زائد کے عوض کرایہ پر لے لے۔ اس پر مضاربت کو قیاس کیا جا سکتا ہے، اگرچہ اس کی تصریح مجھے فقہاء کے کلام میں نہیں ملی۔
ہم کہتے ہیں
یہ بات غور طلب ہے کہ فقہاء نے ناظر کے لیے وقف زمین کو اجرت پر لینے کے جواز کی تصریح کی اورناظر کے مضارب بننے کے جواز کی تصریح نہیں کی۔ آخر ان دونوں میں کچھ فرق ہوگا تب ہی تو فقہاء نے بظاہر فرق رکھا ہے۔