اصولی طور پر اس مرحلے پر بھی دو عقد ہوتے ہیں :
۱۔ امانت کا عقد جس کی وجہ سے پالیسی ہولڈر کی رقم کمپنی کے پاس (یا وقف فنڈ کے پاس) بطورِ امانت آجاتی ہے۔
اس پر آپ نے یہ فرمایا :
کہ اس سے پہلے تو مؤلف یہ کہہ چکا ہے کہ یہ رقم وقف کی ملکیت ہوتی ہے، اب اسے امانت کہناکیسے صحیح ہو گا؟
آپ کا یہ اشکال جنرل تکافل کی حد تک تو بجا ہے، جس کے لیے عبارت میں تبدیلی کی گئی ہے، جو ذیل میں ہے، لیکن فیملی تکافل کے لحاظ سے مذکورہ عبارت درست ہے، کیوں کہ فیملی تکافل میں کمپنی فنڈ کی بھی امین ہے، اور پالیسی ہولڈرز کی بھی امین ہے، اس لیے کہ فیملی میں دو فنڈ ز ہوتے ہیں ، وقف فنڈ جسے پی ٹی ایف کہتے ہیں اور انوسٹمنٹ اکاؤنٹ جسے پی آئی اے کہتے ہیں ، اس فنڈ میں جو رقوم ہوتی ہیں یا ان پر جو حاصل شدہ نفع ہوتا ہے ، وہ پالیسی ہولڈرز ہی کی ملکیت ہوتا ہے، وقف کی ملیکت نہیں ہوتی۔
۲۔امانت کا عقد جس کی وجہ سے پالیسی ہولڈرز کی دی ہوئی وقف فنڈ میں موجود رقم کمپنی کے پاس بطورِامانت ہو جاتی ہے، کیوں کہ کمپنی اس فنڈ کی متولی اور امین ہوتی ہے۔
اشکالِ چہارم:
آپ کا چوتھا اشکال یہ کہ ’’ کمپنی وقف فنڈ کی مضارب نہیں بن سکتی‘‘ جس کی دلیل آپ نے یہ بیان فرمائی:
’’ کیوں کہ فقہاء کرام نے متولی وقف کو صرف اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ مالِ وقف کو اجرت پر دے، مالِ وقف کو مضاربت پر