صورتوں کے بجائے ’’وکالۃ بالاستثمار‘‘ کی بنیاد پر کام کرتی ہیں ، جس میں تکافل کمپنی فند وکیل کی حیثیت سے تجارت کرتی ہے اور اس کی وجہ سے ایک مخصوص فیس وصول کرتی ہے، لہٰذا ایسی پریکٹس پر تو یہ اشکال ہی وارد نہیں ہوتا۔
اشکال:
وقف النقود میں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ جو پیسہ واقفین نے دیا ہے، وہ پیسہ بعینہٖ باقی رہنا ناممکن ہے، جب کہ وقف کی صحت کے لیے وقف کی عین کا باقی رہنا ضروری ہے۔
جواب:
اس کاجواب علامہ شامیؒنے دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نقد اور عام شئی منقول میں فرق ہے، اور وہ یہ کہ نقود تعیین سے متعین نہیں ہوتے، لہٰذا ان کا بدل ان نقود کا قائم مقام سمجھا جائے گااور یہ سمجھا جائے گا کہ عین باقی ہے۔ کما قال:
’’قلت: قإن الدراھم لا تتعین بالتعیین، فھي وإن کانت لا ینتفع بھا مع بقاء عینہا، لکن بدلھا قائم مقامھا لعدم تعینھا فکأنھا باقیۃ… إلخ‘‘۔ (ردالمحتار، کتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصداً)
نیز! فقہاء ِ کرام نے ’’نقودِ موقوفہ‘‘ کا قائم مقام سمجھا جائیگا۔ بطورِ نمونہ درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائیں :
في فتح القدیر: ۶؍۱۹
وعن الأنصاري وکان من أصحاب زفر فیمن وقف الدراھم أو الطعام أو ما یکال أو یوزن أیجوز ذلک؟ قال ؛ نعم؛ قیل: وکیف؟ قال: ’’یدفع الدراھم مضاربۃ، ثم