گا‘‘۔ (کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف)
ثابت ہو ا کہ اسلام کے نظامِ تکافل کا فیض انتہائی وسیع ہے، جس سے اسلامی ریاست کا ہر مستحق شہری بلا تخصیص ِ عقیدہ بقدرِ ضرورت مستفید ہوتا ہے۔
تکافل کی مختلف صورتیں
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق درجاتِ معیشت میں تفاوت اپنی جگہ مگر اس طرح سادہ زندگی کزارنے کاحق سب کو یکساں حاصل ہے کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں ۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے زکاۃ، عشر اور صدقہ فطر وغیرہ کا نظام دیاگیا ہے، اور معاشرہ میں دولت کو زیر گردش لانے اور غرباء کی بہبود میں زکاۃ کا کردار بہت نمایاں ہے، سید قطب شہید ؒ لکھتے ہیں :
’’إن الزکاۃ فرع من فروع نطام التکافل الاجتماعي في الإسلام‘‘۔ (في ظلال القرآن: ۴؍۴۱)
’’زکاۃ اسلام میں تکافل اجتماعی کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے‘‘
رمضان المبارک کے اختتام پر صدقہ فطر بھی تکافل اجتماعی کی ایک شکل ہے، تا کہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر شخص فقراء و مساکین کی دیکھ بھال میں حصہ دار بنے، ایسے ہی مال داروں کو فقیر عزیزو اقارب کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی تکافل میں شامل ہے، جب کہ نفلی صدقات اور ہنگامی حالات میں انفاق کا حکم اس سے الگ ہے۔ اسی طرح غیر ارادی طور پر قتل ہو جانے کی صورت میں دیت تنہا قاتل پر ڈالنے کی بجائے عاقلہ (قاتل کے بھائی، چچا اور ان کی اولاد )کو شریک کرنے کا حکم تکافل کی ہی عکاسی کرتا ہے۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی ؒ اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ والمعنیٰ في ذٰلک أن جنایات الخطأ ودیۃ الآدمي کثیرۃ،