بسم اللہ الرحمن الرحیم
انشورنس کے متبادل ’’نظامِ تکافل‘‘
پر ایک نظر، ایک جائزہ
تمہید
چودہویں صدی ہجری میں جب دوسرے ممالک میں بحری سفر کے ذریعے تجارت کا عام معمول تھا، توان اسفار میں کبھی یہ جہاز بحری قزاقوں کے ہاتھوں لوٹ لیے جاتے اور کبھی سمندری طوفان کی نظر ہو کر غرق ہوجاتے تھے ،جس کی بناء پر تاجروں کا لاکھوں ، کروڑوں کا نقصان ہو جاتا، لہٰذا بحری سفر کے اس ہونے والے نقصان سے بچاؤ کے لیے یا اس نقصان کی تلافی کے لیے’’ بیمہ‘‘ کا آغاز ہوا،چنانچہ بیمہ کا مفہوم یہ بنے گا کہ ’’انسان کو مستقبل میں جو خطرات پیش آنے والے ہوں ، کوئی انسان یا ادارہ ضمانت لے لے کہ فلاں قسم کے خطرات (Risks) کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے مالی اثرات کی میں تلافی کروں گا‘‘۔اس کو اردو میں ’’بیمہ‘‘،انگریزی میں ’’انشورنس،
Insurance ‘‘اورعربی میں ’’التأمین‘‘کہتے ہیں ۔
بیمہ کی ابتداء
علامہ شامی رحمہ اللہ کے زمانے میں یہ معاملہ رواج پا گیا تھا کہ بعض لوگ تاجروں کاسامان سمندر کے راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تواس سامان کا کرایہ لینے