ان تین بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے ہر قسم کی سہولیات پہنچائے، وہ تین چیزیں یہ ہیں :(۱) کھانے پینے کی سہولت، کیوں کہ یہ ہر فرد کی زندگی کا ذریعہ ہے، اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں ۔(۲) لباس کی ضرورت،خواہ وہ روئی کا ہو یا کتان (قیمتی کپڑا) یااُون کا۔(۳) ازدواجی زندگی کی سہولت، کیوں کہ یہ انسانی نسل کی بقاء کے لئے ضروری ہے ‘‘۔(اسلام کا اقتصادی نظام،ص:۱۵۳، ندوۃ المصنفین)
دوسری قسم کی ضروریات:
اس قسم میں وہ ضروریات شامل ہیں ،جو انسان کو اخلاقی اعتبار سے اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط کرتی ہیں ،ان میں تعلیم و تربیت، صحت و دیگر مصائب، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی کفالت، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی، نومولود بچوں کے وظائف، اپاہج و ناکارہ افراد کی کفالت، سراؤں کی تعمیر، خواتینِ اسلام کی کفالت وغیرہ وغیرہ۔(ان تمام صورتوں کے تفصیلی احکامات کتاب الأموال لأبی عبید،کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم القرشی، سیرۃ عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکیم، سیرۃ عمر بن عبد العزیز لابن جوزی، سیرۃ عمر بن الخطاب لابن جوزی، تاریخ الخلفاء للسیوطی، الطبقات الکبریٰ لابن سعد میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔)
کفالت کس حد تک کی جائے گی؟
اسلام کے نظام ِ کفالت عامہ کی حدود کیا ہیں ؟ تو جاننا چاہئے کہ جوں جوں اسلامی ریاست وسیع ہوتی جائے گی اور وسائل بڑھتے جائیں گے، اسی طرح کفالت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا، چنانچہ اسلام کے نظام تکافل و کفالتِ عامہ کی وسعت ، جامعیت، کاملیت و حدود کا اندازہ لگانے کے لئے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جنہیں خلیفہ راشد تسلیم کیا گیا ہے، کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ :