اپنے اس اختراعی مغالطہ کے جواب میں مولانا تقی عثمانی مدظلہ کی جو عبارت نقل کی ہے، وہ میں بھی نقل کر چکا ہوں ۔ آپ کا ذکر کردہ مغالطہ نہ میں نے سمجھا اور نہ میں نے کہیں اس کا ذکر کیا۔ فیاللعجب
تیسرا سُقم:
آپ حضرات نے اپنے جواب کے صفحہ نمبر: ۳ پر لکھا ہے:
’’ذکر کردہ اشکال کی بنیاد پر موجودہ تکافلی نظام کو اس وقت ناجائز کہا جا سکتا تھا، جب اصل واقفین وقف کرتے وقت ’’وقف علی النفس‘‘ کی شرط لگاتے ، جب کہ موجودہ صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے‘‘۔
میں کہتا ہوں :
وقف علی النفس کا لفظ تو اس لیے استعمال کیا ہے کہ مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے اس کو تکافل علی اساس الوقف کے چار قواعد میں سے شمار کیا ہے۔ ورنہ وقف علی النفس ہویا وقف علی الاولادہو یا وقف علی الاغنیاء المتضررین ہو ، سب کا ایک حکم ہے۔ اور اس کی تو چند سطروں بعد آپ حضرات نے بھی تصریح کی ہے کہ ’’اس (یعنی: وقف فنڈ) کی ابتداء متضررین کے لیے اور انتہاء قربت کے لیے ہے‘‘۔
چوتھا سُقم:
آپ حضرات نے میری یہ بات تو نقل کی کہ
’’صمدانی صاحب کے یہ الفاظ ’’اس وقف سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس وقف کو عطیہ دیں ‘‘ اس پر واضح دلیل ہے کہ یہ