جائیداد خود ابدی و دائمی ہوتی ہے کبھی ضائع نہیں ہوتی جبکہ نقدی اور دیگر منقولہ اشیاء میں ابدیت و دوام کی توقع ہی نہیں ہوتی بلکہ نقدی میں تو خطرہ ہوتا ہے کہ کاروباری نقصان کے باعث اصل رقم کچھ یا کل ہی جاتی رہے جبکہ دیگر منقولہ اشیاء مثلاً بہت سے برتن ،کتابیں اور مصاحف وغیرہ تیس چالیس سال کے استعمال سے بوسیدہ ہو جاتی ہیں اور کسی دوسرے کے کام کی نہیں رہتیں ۔علاوہ ازیں وہ کسی حادثے کا شکار بھی ہو سکتی ہیں اور چوری بھی ہو سکتی ہیں اس لئے منقولہ اشیاء میں صرف یہی صورت ممکن ہے کہ آدمی ان کو وجوہ خیر میں فوری وقف کر دے اور شرط کر دے کہ وہ خود بھی دوسرے کے ساتھ نفع اٹھائے گا یا وقف کے منافع کا حقدار ہونے کی وجہ سے دوسرے حقداروں کے ساتھ شریک ہوگا۔
ہماری بات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں
(۱) اگرچہ منقولہ اشیاء میں وقف درست ہے لیکن وہ خلاف قیاس محض استحسان کی وجہ سے درست ہے یعنی حدیث کی وجہ سے، تعامل کی وجہ سے اور فقراء کے لئے نفع ہونے کی وجہ سے۔
لا یجوز وقف ما ینقل ویحول…وقال محمدؒ: یجوز حبس الکراع والسلاح، معناہ: وقفہ في سبیل اللہ وأبو یوسفؒ معہ فیہ علی ما قالوا و ھو استحسان ۔ والقیاس أن لا یجوز لما بیناہ من قبل( من شرط التابید والمنقول لا یتابد)۔
وجہ الاستحسان الٓا ثار المشہورۃ أي: في الکراع والسلاح وعن محمدؒ أنہ یجوز وقف ما فیہ تعامل من المنقولات کالفأس والمر والقدوم والمنشار والجنازۃ