تجارت کرے اور اس کا نفع مساکین اور رشتہ داروں کے لیے صدقہ کر دیا۔ کیا وہ شخص اس ہزار کے نفع سے خود کھا سکتاہے؟ خصوصاً اگر اس کا نفع مساکین کے لیے صدقہ نہ کیا ہو۔ تو امام زہریؒ نے فرمایا: اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس سے کھائے‘‘۔
صحیح مؤقف
امام بخاریؒ کا تفقہ فی الدین اور مقام و مرتبہ شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن اگر فریقین کے پیش کردہ دلائل کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو حسبِ ذیل وجوہ کے باعث ان حضرات کا مؤقف صائب معلوم ہوتا ہے، جو روپے پیسے کے وقف کو جائز نہیں سمجھتے۔
٭ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ وقف میں اصل چیز کو باقی رکھ کر صرف اس کی منفعت خرچ کی جائے گی، اس کی بنیاد پر نبی اکرم ﷺکا یہ فرمان ہے:
’’إن شئت حبست أصلھا وتصدقت بھا‘‘۔
(صحیح البخاري: ۲۷۳۷)
’’اگر تو چاہے تو اس کا اصل روک لے اور اس کی منفعت کو صدقہ کر دے‘‘۔
یہ حدیث اس امر کی صریح دلیل ہے کہ وقف وہ چیز ہو سکتی ہے، جس کو باقی رکھ کر فائدہ اٹھانا ممکن ہو ، جب کہ روپیہ اپنی اصل حیثیت میں رہتے ہوئے کوئی فائدہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، نہ اس کو کھایا جا سکتا ہے، نہ پہنا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس میں رہائش رکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس پر سواری کی جاسکتی ہے۔ یہ تو محض حصولِ اشیاء کا ایک وسیلہ ہے، یعنی: جب تک اس کو خرچ نہ کریں ، اس سے استفادہ ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ روپے پیسے کو کرایہ پر دینابھی درست نہیں ، کیوں کہ کرایہ اسی چیز کا لیا جاتا ہے، جسے صرف کیے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہو،