راہِ عمل متعین کر دی گئی ، اور پھر دوسرے طرز پر مقصد یہ بتایا گیاکہ
’’کي لا یکون دولۃً بین الأغنیاء منکم‘‘۔(الحشر:۷)
ترجمہ:’’تاکہ وہ (دولت)تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے‘‘۔
اس آیت ِ کریمہ میں اسلامی معاشرے اورحکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہئیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں میں ہی گھومتا رہے،یا امیر! روز بروزامیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں ، اس مقصد کے لئے سود حرام کیا گیا، زکوٰۃ فرض کی گئی، مالِ غنیمت میں خُمس مقرر کیا گیا، صدقات کی ترغیب دی گئی، مختلف قسم کے کفارات کی ایسی صورت تجویز کی گئی جِن سے غریب افراد کی خاطر خواہ دلداری اور حاجت براری ہو سکے ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیاکہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت اور سخاوت و فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ، الغرض وہ تمام انتظامات کئے گئے کہ دولت پربااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور دولت کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف بھی ہو جائے۔
احادیث ِ مبارکہ کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب:
سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کہ یہ افرادِ معاشرہ سے سخاوت کو بالکلیہ ہی ختم کر دیتا ہے، چنانچہ اِس نظام کی کسی بھی کتاب کو اُٹھا کے دیکھ لیا جائے کہ اس میں سخاوت و فیاضی کا کوئی ایک بھی عنوان ڈھونڈنے سے نہ مل سکے گا ، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نظام کا خمیر ہی بخل اور امساک سے اٹھایا گیا ہے، جبکہ سخاوت و فیاضی کریمانہ اَخلاق کے وہ حصے ہیں جو اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کرنے سے فقراء و مساکین کی محبت ، دنیاداری کی حقارت