{انا وکافل الیتیم في الجنۃ ھٰکذا…} (صحیح البخاري: ۵۳۰۴)
’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے، آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی اُنگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا، جیسے یہ دونوں اکٹھی ہیں ‘‘۔
٭البتہ لغت کی جدید کتب میں یہ لفظ زیرِ بحث آیا ہے، چناں چہ ’’المَورد‘‘ میں تکافل کا معنیٰ :Joint Liability or responsibility; solidarity لکھا ہے۔یعنی’’مشترکہ ذمہ داری یا جواب دہی؛ باہمی اتفاق؛ مقاصد اور عمل کا اتحاد‘‘۔
٭مُعجَم الطُلَّاب میں ہے:
’’تَکافَلَ یَتَکافَلُ، تَکافُلاً: تَضَامَنَ؍ تَبادَل الضَّمانۃُ معَ غیْرِہ‘‘۔
’’دوسرے کے ساتھ گارنٹی کا تبادلہ کرنا‘‘۔
٭مُعجَمُ لُغَۃُ الْفُقَھَاء میں تکافل کا معنیٰ و مفہوم یوں بیان ہوا ہے:
’’تبادل الإعانۃ والنفقۃ والمعونۃ (Solidarity) الرعایۃ والتحمل، ومنہ تکافل المسلمین رعایۃً بعضھم بعضاً بالنصح والنفقۃ وغیر ذٰلک‘‘۔
’’کفالت، نفقہ اور اعانت کا تبادلہ (انگریزی میں سولیڈیرٹی)بمعنی خیال رکھنا اور برداشت کرنا اور اسی سے تکافل المسلمین ہے، یعنی مسلمانوں کا ایک دوسرے کا خیر خواہی اور خرچ وغیرہ کر کے خیال رکھنا ‘‘۔
اسلام میں تکافل کی اہمیت