مستقل ہے، اور واقفین کو اس بات کااختیار ہے کہ وقف میں یہ شرط لگائیں کہ اس وقف کے موقوف علیہم وہ لوگ ہوں گے جو اس فنڈ کے رکن ہوں گے۔ چوں کہ یہ شرط کسی شرعی اصول سے متصادم نہیں ہے، اس لیے اسے ناجائزکہنے کی کوئی وجہ یا دلیل موجود نہیں ، جیسا کہ عام طور پر مختلف برادریوں میں اس طرح کے فنڈ بنائے جاتے ہیں ، لہٰذا اس کو عقدِ معاوضہ کہنا درست نہیں ، عقدِ معاوضہ اس وقت ہوتا کہ چندہ کمپنی مالکان کو دیا جاتا، کمپنی مالکان اس چندہ کے مالک بنتے اور پھر کمپنی مالکان نقصان کی تلافی کرتے‘‘۔ (تحریر نمبر:۱، ص:۴)
ہم کہتے ہیں
1۔ جہاں تک برادریوں کے فنڈ اور تکافل فنڈ کے درمیان فرق کا تعلق ہے تو وہ بہت سے ہیں :
٭ عام طور پربرادریوں کے فنڈ سے استفادہ مال داروں کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ غریبوں کے لیے ہوتا ہے یا جو کسی حادثہ میں غربت کے درجہ میں آجائیں ، ان کے لیے ہوتا ہے۔
٭ امداد باہمی فنڈمیں یہ نہیں ہوتا کہ جو جتنا زیادہ چندہ دے گا اس کو تدارک اتنا زیادہ ملے گا، بلکہ ہر ایک کی ضرورت کے بقدر یا ہر ایک کو مخصوص رقم ملتی ہے، اگرچہ میں واقعی وہ چندہ کم دیتا ہے۔
٭ تکافل فنڈپہلے سے قائم ہوتا ہے، جس کے ساتھ کمپنی کے شرکاء کا مفاد وابستہ ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مضارب بن کر یا وکیل بن کر روپیہ کماتے ہیں ۔ اس کے برعکس امداد باہمی فنڈ کے متولی بھی چندے کو کسی دوسرے کو مضاربت پر دیتے ہیں ، لیکن خود کوئی کمائی