بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
اسلام کا نظامِ کفالتِ عامہ
اسلام سے قبل لوگوں کی حالت
آج سے چودہ سو تیس سال قبل جب دنیا موجودہ وقت سے زیادہ غیر متمدّن اور ظلمت و جہالت کا شکار تھی، معاشرے کا ہر ہر شعبہ اِفراط و تفریط کا شکار ہو چکا تھا ، غریب اور کمزوروں سے جینے کا حق چھین لیا گیا تھا، الغرض ہر شعبہ اور ہر طبقہ بہت زیادہ کسمپُرسی کا شکار ہو چکا تھا ، اِن تمام حالات کے درمیان نظامِ معاش بھی ہر طرح کی ناہمواریوں کا شکار تھا، ایسے میں جب نااُمیدی کے بادل پورے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھے ، ایک آفتاب وماہتاب ایک طریقہ زندگی لے کر نمودار ہوا اور ظلمت سے بھری دنیا کے گوشے گوشے کو نورانیت سے بھر دیا، بہت ہی قلیل مدت ۲۳؍ سال کے عرصہ میں اس ’’طریقۂ زندگی‘‘ (جسے ’’اسلام‘‘کہتے ہیں )نے اپنا لوہا منوا لیااور ہر میدان میں ایسا نظام پیش کیا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن گئی ، شیراور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے نظر آنے لگے،امراء کو عزت ملی تو غریبوں کو سکون اور آسائش ملی، ہر فرد دوسرے کے غم کو اپنا غم اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے لگا، حتی کہ پورا معاشرہ ایک جسد ِ واحد کانظارہ پیش کرنے لگا، جس کے ایک حصے کی تکلیف کو محسوس کرنے والا صرف ایکحصہ ہی نہیں ہوتا ،بلکہ پورا جسم ہوتا ہے۔
اسلام کا معاشی نظام
ان طریقہ ہائے زندگی میں سے اسلام کا نظام ِ کفالت یا نظام ِ تکافل بھی ہے،جو ایسا جامع نظام ہے جس کے تحت ایسا معاشی نظام قائم ہو گا ، جس میں بلا کسی تخصیص وامتیاز ، معاشرے کے ہر فرد کو کسی نہ کسی شکل میں اتنا سامان ِ معاش ہر حال میں میسر ہو جائے ،