نقصان کا شکار ہونے والے ممبران کا ذکر ہے، لیکن مولانا عثمانی مدظلہ نے وقف کی اساس پر تکافل کا تفصیلی نظام دیا ہے اور اس میں اس کے چار قواعد ذکر کیے ہیں ، ان میں سے ایک وقف علی النفس کے جواز کو ذکر کیا ہے اور اس کے جواز سے انہوں نے نقصان کا شکار ہونے والے اغنیاء کے لیے وقف کو جائز کہا۔ اسی کی مناسبت سے ہم نے نقدی اور دیگر منقولہ اشیاء میں وقف علی النفس کے عدمِ جواز کو ثابت کیا اور اس کے عدمِ جواز سے اغنیاء پر وقف کو بھی ناجائز کہا۔
دوسرا اعتراض
ہم نے نقصان کا شکار ہونے والے مال دار ممبران (اغنیاء متضررین) پر وقف کو ناجائز کہا حالانکہ اس کی کوئی دلیل ان دو حضرات کو نہیں ملی۔
جواب
جب وقف علی النفس اور وقف علی الاغنیاء کی شرعی حیثیت اور شرعی حکم یکساں ہے اور نقدی و دیگر منقولہ اشیاء میں وقف علی النفس کے عدمِ جواز کی دلیل ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں تو جو ایک کی دلیل ہے وہی دوسرے کی بھی دلیل ہے۔
تیسرا اعتراض
تکافل کے نظام میں وقف کی شرائط میں نقصان کا شکار ہونے والوں کے لیے مال دار ہونے کی شرط مذکور نہیں ، وہ فقیر بھی ہو سکتا ہے۔
جواب
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تکافلی نظام میں وقف کی شرائط میں اغنیاء کی کوئی قید مذکور نہیں ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ واقع میں انشورنس پالیسی لینے والا بھی کوئی فقیر