ایک تاویل کا جواب
مروجہ تکافل کے بعض حامی اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ پالیسی ہولڈر یہ فوائد دئے گئے عطیات کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ وقف کے قوائد و ضوابط کے تحت حاصل کرتا ہے، یعنی وہ یہ نہیں کہتا، چوں کہ میں نے وقف کو اتنا چندہ دیا ہے، اس لیے میں ان فوائد کا حق رکھتا ہوں ، بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ ان قواعد کی بنیاد پر مجھے یہ فوائد حاصل ہونے چاہیے۔ یہ قانونی حق اس کو عقدِ معاوضہ میں داخل نہیں کرتا…… مگر دو وجوہ سے یہ تاویل عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔
(۱) ایک تو اس لیے کہ پالیسی ہولڈر کو قواعد و ضوابط کے تحت اس دعویٰ کرنے کا حق بھی تو دی گئی رقم کے بدلے ہی حاصل ہوا ہے۔ اب آپ قواعد و ضوابط کا نام لیں یا پریمیم کی کمی بیشی کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(۲) دوسرا اس لیے کہ پالیسی ہولڈر کی نظر تو ان فوائد پر ہوتی ہے، جو اس کو مستقبل میں اس کے بدلہ میں حاصل ہونا ہوتے ہیں ۔وہ قوائد و ضوابط کے تحت حاصل ہوں یا دی گئی رقم کے عوض، اس کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی،یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت پالیسی حاصل کرتے وقت فوائد کے متعلق تو پوچھتی ہے مگر وقف کے قوائد وضوابط کے بارے میں سوال نہیں کرتی۔
ایک مجلس میں راقم نے ایک مشہور تکافل کمپنی کے سینئر کنسلٹنٹ سے پوچھا کہ کیا آپ پالیسی حاصل کرنے کے خواہش مندوں کو قواعد و ضوابط سے آگاہ کرتے ہو، تو انہوں نے صاف کہا کہ لوگ ہم سے یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا؟، قواعد و ضوابط کے متعلق کبھی سوال نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جن خرابیوں کی بناء پر روایتی انشورنس حرام ہے، تکافل ان سے پاک نہیں ۔