حاصل کرنے کے لیے یہ شرط نہیں کہ وقف سے فائدہ اٹھانے والے شخص نے بھی کچھ نہ کچھ عطیہ ضرور دیا ہو، بلکہ مثلاً جب کوئی کنواں وقف ہو گیا تو اب اس سے ہر پیاسا شخص پانی پی سکتا ہے، چاہے اس نے کنویں کو خرید کر وقف کرنے میں کوئی حصہ ملایا ہو یا نہ دیا ہو۔… (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خواہ اس نے کنویں کے اخراجات کے لیے چندہ دیاہو یا نہ دیاہو۔ عبد الواحد) تکافل، ص: ۱۰۲، ۱۰۳۔
صمدانی صاحب کا جواب
’’ وقف کے اندر اس بات کی شرعاً گنجائش ہے کہ وہ کسی مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہو، مثلاً: کوئی شخص یہ شرط لگائے کہ میں فلاں باغ اس شرط پر وقف کرتا ہوں کہ اس کا پھل صرف فلاں رشتہ داروں کو یا میری اولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے اور میرے بعد فلاں بستی کے فقراء اس سے فائدہ اٹھائیں …
وقف کرنے والا وقف کے مصالح کے پیشِ نظر وقف کے دائرہ کو مخصوص افراد تک محدود رکھنا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ تکافل کمپنی میں وقف کی بنیاد پر قائم پول کو اگر بالکل عام کر دیا جائے اور ہر شخص کو اس سے اپنا رسک کور (Risk cover) کرنے کی اجازت دی جائے تو ظاہر ہے کہ اس پول میں ہرگز اس کی گنجائش (Capacity) نہیں ، لہٰذا ضروری ہو گا کہ یہ وقف کسی مخصوص طبقے کے لیے ہو ، پس اگر واقفین شروع میں یہ شرط لگا دیں کہ اس وقف سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، جو اس وقف کو عطیہ (Donation) دیں ، تو یہ قید (Restriction)لگانا جائز نہیں