البعض لنفسہ مادام حیا وبعدہ للفقراء قال أبو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ: الوقف صحیح ومشائخ بلخ رحمھم اللہ أخذوا بقول أبي یوسفؒ وعلیہ الفتوی ترغیبا للناس في الوقف…ولو قال أرضي ہذہ صدقۃ موقوفۃ تجري غلتھا علی ما عشت ثم بعدي علی ولدي وولد ولدي ونسلھم أبدا ما تناسلوا فإن انقرضوا فھي علی المساکین جاز ذلک ۔کذا في خزانۃ المفتین۔
ذخیرہ میں ہے :جب کوئی شخص کوئی زمین یا کوئی اور شے وقف کرے اور یہ شرط کرے کہ جب تک وہ زندہ ہے وہ کل وقف کو یا اس کے ایک حصہ کو اپنے استعمال میں رکھے گا تو ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ وقف صحیح ہے اور مشائخ بلخ نے ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا اور اسی پر فتوی ہے تاکہ لوگوں کو وقف کرنے میں رغبت رہے…اور اگر کوئی شخص یوں کہے کہ میری یہ زمین صدقہ وقف ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اسکی آمدنی لوں گا اور میرے بعد میری اولاد پر اور اولاد کی اولاد پر اور میری پوری نسل پرجب تک وہ چلے پھر جب میری نسل ختم ہو جائے تو وہ مساکین پر وقف ہے تو جائز ہے خزانۃ المفتین میں ایسے ہی ہے۔
ہم کہتے ہیں :
واقف کا یہ شرط کرنا کہ زندگی بھر وقف کردہ شے سے صرف وہی نفع اٹھائے گا بلکہ اپنی اولاد اور پوری نسل کے لئے بھی یہ شرط کرنا غیر منقولہ جائیداد میں تو متصور ہے کیونکہ وہ