کمپنی کے حصہ داران اپنے طور پراموالِ غیر منقولہ یانقود یا دونوں کو شرعی اصول و ضوابط کے مطابق وقف کریں گے، جنہیں وقف کہا جائے گا اور ان کے لیے آخری جہت ’’قربت ‘‘ یعنی: فقراء و مساکین پر تصدق (صدقہ کرنا ) ہو گی‘‘۔ (مسودہ، تکافل کی قراردادیں ،
ص:۳)
اشکال دوم:
’’وقف مخصوص افراد کے لیے ہو سکتا ہے‘‘ آپ اسے تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ اختصاص اس بنیاد پر ہونا تسلیم نہیں کہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہو، جنہوں نے پالیسی حاصل کی ہے، بلکہ مخصوص علاقے کے لیے یا مخصوص رشتہ داروں وغیرہ کے لیے ہونا صحیح ہے۔ آپ کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح یہ عقدِ معاوضہ بن جائے گا، جیسا کہ آپ لکھتے ہیں :
’’صمدانی صاحب کے یہ الفاظ ’’اس وقف سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، جو اس وقف کو عطیہ دیں ‘‘ اس پر واضح دلیل ہیں کہ یہ عقدِ معاوضہ ہے‘‘۔
جواب:
اس اعتراض کا اسی مجلس میں جو جواب دیا گیا تھا، اس کا حاصل یہ ہے کہ ’’چندہ تو ہدیہ اور عطیہ ہے، جبکہ پالیسی ہولڈرز کے نقصان کی تلافی وقف کی شرائط کی وجہ سے ہے‘‘۔
اس جواب کی تفصیل اوپر مذکور ہوئی کہ یہاں دونوں اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ الگ معاملات ہیں ، کیوں کہ چندہ دہندگان کو نقصان کی تلافی کا فائدہ اس کی کسی شرط کی وجہ نہیں مل رہا، بلکہ وہ تو فنڈ کو چندہ دے کر فنڈ کا رکن بن گیا،اب اس کو فائدہ واقفین کی