وقت ’’جب کوئی ظاہری ٹھاٹ باٹ نہ تھی‘‘ اپنا اثر قائم کر سکتا ہو اور آج کے دور میں بے اثر ہو!!اگر معاشرے کے چند بااثر افراد مل کر ہمت و کوشش کر لیں اور اپنے فاضل اموال کو مذکورہ بالا مدّات میں خرچ کر لیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی کچھ اور، اور پھر کچھ اور، حتیٰ کہ ہر طرف ایک عام فضا بن جائے تو یقینا مقصود حاصل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
اسلام کا نظامِ کفالت کن کن افراد کے لئے مفید ہو گا؟
اسلامی ریاست میں بسنے والے چونکہ صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے بلکہ غیر مسلم بھی ہوتے ہیں تو ریاست میں مقیم ہر مسلم و غیر مسلم کی کفالت اس نظام کا حصہ ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِمبارک میں جب’’حیرہ ‘‘ فتح ہوا تو اس موقع پر ایک معاہدہ لکھا گیا جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے کفالت ِ عامہ کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو:
’’وجعلتُ لہم أیّما شیخ ضعُف عن العمل أو أصابتہ اٰفۃٌ من اٰفاتٍ أو غنيّ فافتقر و صار أھلُ دینہ یتصدّقون علیہ ، طرحت جزیۃ ، وعیل من بیت مال المسلمین وعیالہ ما أقام بدارالہجرۃ و دارالإسلام ‘‘۔
(کتاب الخراج لأبي یوسف، باب في الکنائس والبیع والصلبان،ص:۱۴۴، مطبوعۃ سلفیۃ)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :’’میں طے کرتا ہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعیف ہو ، کام نہ کر سکتا ہو، یا آسمانی یا زمینی آفات میں سے کوئی آفت اس پر آپڑے ، یا ان کا کوئی مالدار محتاج ہو جائے اور اس کے اہلِ مذہب اس کو خیرات دینے لگیں ،تو جب تک وہ دارالہجرۃ اور دارالاسلام میں اقامت پذیر ہوں ،ایسے تمام افراد کو جزیہ معاف ہے اور بیت المال سے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی کفالت کی