بسم اللہ الرحمن الرحیم
شرعی اورمروجہ تکافل کا تقابلی جائزہ
مولانا حافظ ذوالفقار علی
ابوہریرہ شریعہ کالج،لاہور
کچھ عرصہ سے بعض مالیاتی ادارے اسلامی بینکوں کی طرز سود، غرر اور قمار پر مشتمل انشورنس کا متبادل نظام بڑے زور وشور سے متعارف کرا رہے ہیں ، جس کو ’’تکافل‘‘کا نام دیا گیا ہے، جو ادارہ اس کا انتظام و انصرام کرتا ہے، اس کو تکافل کمپنی کہا جاتا ہے، جیسے ’’پاک کویت جنرل تکافل کمپنی‘‘ یا ’’پاک قطر فیملی تکافل کمپنی‘‘ وغیرہ ۔ان کمپنیوں کے بقول یہ نظام چوں کہ ہر اعتبارسے شرعی اُصولوں کے عین مطابق ہے، اس لیے اس کو ’’اسلامی انشورنس‘‘ بھی کہا جاتا ہے،چوں کہ اس کام سے ان اداروں کی غرض نفع کمانا ہے، اس لیے ہم اس کو ’’تجارتی تکافل‘‘بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ’’تکافل‘‘کا مفہوم اور شرعی تصور کیا ہے؟شرعی اور تجارتی تکافل میں بنیادی فرق کیا ہے؟ نیز تجارتی تکافل کی شرعی اساسی اور حکم کیا ہے؟ ذیل میں ان سوالوں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں :
تکافل کا معنی و مفہوم
ہماری معلومات کے مطابق نہ تو قرآن و حدیث میں تکافل کا لفظ آیا ہے اور نہ ہی لغت کی قدیم کتب میں یہ لفظ ملتا ہے، البتہ قرآن و حدیث میں ایسے الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں جن کا مادہ وہی ہے، جو تکافل کا ہے، یعنی: وہ الفاظ ک ف ل سے بنے ہیں ۔