اہلِ مغرب کا پروپیگنڈہ
اس کے بعد یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ مغربی دنیا اور بعض جدّت کی طرف مائل مسلم دانشور بھی یہ پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’اسلام نے کوئی معاشی نظام نہیں دیا ‘‘، ان کا یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتاہے ، اس لئے کہ معیشت کا تعلق حصولِ رزق اور پیدائش ِ دولت سے ہے، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور رہنے سہنے کے لئے انتظام کیا جانا انسانی تاریخ کا اتنا قدیم عنصر ہے جتنی دنیا کی تاریخ ، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اسلام آنے کے بعد ہزار سال تک(جو کہ دنیا میں اسلام کے عروج کا دور ہے) لوگ ضروریات ِ زندگی سے محروم تھے؟
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا مثالی دور
ہر گز نہیں !بلکہ حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا مختصر دور توہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے، کہ جو نظام محض ۲۳؍ سال میں انہوں نے پوری دنیا میں متعارف کرا کے رائج بھی کر دیا اوروہ ۳۲؍ سال تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہا ، پھر غیروں کی سازشوں اور کوششوں سے اِس نظام کے ختم ہونے تک ایک ہزار برس لگ گئے، یعنی جو فلسفۂ معاش ساتویں صدی عیسوی میں انسانیت کے سامنے آیا اُس کے اثرات سترہویں صدی عیسوی تک بھی مٹائے نہ جا سکے ، اور آج بیسویں صدی میں بھی دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی اِس نظام کو اپنائے ہوئے ہے، پھر اِس نظام کو فرسودہ کیونکر کہا جا سکتا ہے؟!
اسلامی نظام ِ معاش و نظامِ کفالت کے خلاف باطل کی کوششیں
اسلامی نظام ِ معاش و نظامِ کفالت کو برباد کرنے کے لئے برسہا برس کوششیں ہوئیں ، منصوبے بنے ، اُن پر عمل ہوا، اور ایک حد تک اِن اسلام دشمن عناصر کو کامیابی بھی