ہو گا۔(تکافل،ص: ۱۰۳)
ہم کہتے ہیں
-1 اشکال یہ تھا کہ اوپر دی گئی مثالوں میں مثلاً:کنویں سے پانی پینے میں یا مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دلوانے میں یہ شرط نہیں ہے، کہ آدمی نے وقف کو چندہ دیا ہو جب کہ تکافل کے وقف فنڈ میں یہ شرط ہے، لہٰذا وہ تکافل کی مثالیں نہ بنیں ۔ ان کو تکافل کی مثالیں بنانے کے لیے دو میں سے ایک کام کرنا تھا۔
۱۔ یا تو وہ کہتے کہ کنویں سے پانی پینا بھی چندے (یا قیمت) کے ساتھ مشروط ہو سکتا ہے اور مدرسہ میں تعلیم بھی چندے (یا فیس) کے ساتھ مشروط ہو سکتی ہے، جو معاوضہ ہے۔
لیکن صمدانی صاحب نے اس جواب سے اعراض کیا تا کہ وہ عقدِ معاوضہ کے چکر میں نہ پھنس جائیں ، کیوں کہ پانی اور تعلیم تو روپے کے عوض میں ہو سکتے ہیں ، لیکن انشورنس کا کلیم تو خود روپوں میں ہوتا ہے اور روپوں کے معاوضہ میں کمی بیشی سود ہے۔
۲۔ یا وہ یہ کہتے کہ جب وقف میں اتنی گنجائش نہیں تو جیسے مدرسہ میں طلبہ کی تعداد ایک حد تک ہی ہو سکتی ہے اسی طرح چندے کی شرط کے بغیر کسی مخصوص علاقہ کے لوگوں کو اس کی سہولت مہیا کی جاتی یا پہلے رابطہ کرنے والے سو افراد کو وقف سے فائدہ پہنچایا جاتا۔
لیکن صمدانی صاحب نے اس جواب کو بھی اختیار نہیں کیا ، کیوں کہ اس طرح تکافل کمپنی کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
اس لیے صمدانی صاحب نے اپنے دعوے پر جو اشکال ظاہر کیا ، اس کے جواب میں بھی صرف دعوے کو ذکر کر دیا۔ان کا دعویٰ تھا ’’ کہ وقف کو تبرع کے طور پر رقم دینے والا اسی طرح پول سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس طرح مدرسہ یا قبرستان کو چندہ دینے والا‘‘ اور