اسلام کے نظام ِ کفالت ِ عامہ کا دستور
اسلام جس قسم کا نظام ِ کفالت پیش کرتا ہے، اس میں اوّلیت اس بات کو دی گئی ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے، اس نظام میں امیر کو ترغیب دے کر، اور آخرت کا خوف دلاکر یہ درس دیا جا تا ہے کہ وہ غریب اور محروم المعیشت تک اس کی ضروریاتِ زندگی پُہنچائے، جو شخص مفلس اور نادار کی حاجت پوری نہ کرے وہ کامل مسلمان ہی نہیں ۔
قرآن ِ پاک کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب:
اسلام میں کمال حاصل کرنے کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، اُن میں سے ایک صفت غرباء کو کھانا کھلانے کی تلقین بھی ہے،ملاحظہ ہو:
’’أرء یت الذي یکذب بالدّین ، فذٰلک الذي یدع الیتیم ، ولا یحض علی طعام المسکین ‘‘۔ (الماعون:۱ تا ۳)
ترجمہ:’’کیا تو نے ایسے شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کا منکر ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا‘‘۔
دیکھئے !غریب کو خود کھانا کھلانے سے انکار تو دور کی بات ہے، یہاں تو اگر کوئی فرد کسی دوسرے متمول شخص کو کسی بھوکے شخص کوکھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا تب بھی اسے صحیح اور کامل دیندار قرار نہیں دیا جارہا۔
ایک اور جگہ تو بہت سخت لہجے میں فرمایا گیا:
’’خذوہ فغلوہ ، ثم الجحیم صلّوہ ، ثم في