نہیں کرتے۔
٭ امداد باہمی میں ارکان اکٹھے ہو کر ہر ایک کے فائدے کا سوچتے ہیں ، جب کہ جب کہ تکافل میں وقف فنڈرکن صرف اپنے فائدے کا سوچتا ہے، جو بھی تکافل کمپنی میں جاتا ہے، اس کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ دوسروں کو کیا مل رہا ہے؟!
اگر اغنیاء و مال دار محض اپنے فائدے کے لیے تکافل کے طرز پر امداد باہمی کا فنڈ قائم کریں اور تکافل کے طرز پر ہی اس کو چلائیں ، تو یقینا وہ بھی درست نہ ہو گا۔
2۔ ان حضرات کا یہ کہنا کہ ’’عقدِ معاوضہ اس وقت ہوتا کہ چندہ کمپنی مالکان کو دیا جاتا ،کمپنی مالکان اس چندہ کے مالک بنتے اور پھر کمپنی مالکان نقصان کی تلافی کرتے‘‘، اگر یہ حضرات کچھ توجہ فرماتے تو اس کا جواب ہماری اوپر نقل کردہ دلیل میں موجود تھا۔ پھر بھی ہم جواب کو مزید واضح کرتے ہیں :
مولانا تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں :
’’إن الوقف لہ شخصیۃ معنویۃ، یتمکن بھا من أن یتملک الأموال ویستثمرھا ویملکھا‘‘۔
(ترجمہ:وقف فنڈ کا کوئی مالک نہیں ہوتا ، اس کی خود اپنی معنوی شخصیت ہوتی ہے، جس کے ذریعے وہ مالک بنتا ہے اور مالک بناتا ہے)۔
ہم کہتے ہیں
مفتی عصمت اللہ صاحب اور مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب کے بقول اگر چندہ کمپنی مالکان کو دیا جاتا اور وہ اس کے مالک بنتے اور پھر وہ نقصان کی تلافی کرتے تو یہ عقد معاوضہ بنتا۔ یہ حضرات شخصِ قانونی میں مالک بننے اور بنانے اور ذمہ دار بننے اور بنانے کی