لیکن اگر کچھ ادارے تکافل کے نام پر یہ مطالبہ کریں کہ ہم آپ کی بیوی بچوں کی مدد تب کریں گے، جب آپ اتنے سالوں تک ہر ماہ ایک متعین رقم ہمیں وکالۃ یا مضاربۃ کی بنیاد پر کاروبار اور وقف فنڈ میں بطورِ چندہ دیں گے، تو اس سے اسلام کے تکافلِ اجتماعی کا مقصد [ہر گز] حاصل نہیں ہو گا۔
مروجہ تکافل اور اس کا طریقہ کار
ماضی قریب میں تکافل کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، جس کا مقصد دوسروں کے ساتھ تعاون کے بجائے دراصل اپنے نقصان کا ازالہ ہوتا ہے اور اس کے منتظم بھی یہ کام بطورِ کاروبارکرتے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ
٭سب سے پہلے کچھ لوگ یا مالیاتی ادارے مل کر ایک کمپنی قائم کرتے ہیں ، جس کو تکافل کمپنی کہا جاتا ہے۔اس کمپنی کے ادا شدہ سرمایہ کا ایک حصہ وقف کر کے ایک پول بنایا جاتا ہے، یہ پول کسی کی ملکیت نہیں ہوتا، بلکہ اپنا الگ قانونی وجود رکھتا ہے، جب کہ کمپنی کی طرف سے پول میں ڈالی گئی رقم ان متاثرین کے لیے وقف ہوتی ہے جو پالیسی حاصل کرتے ہیں ۔
٭ کمپنی مالکان وقف کی اس رقم کو وقف کے ایجنٹ (وکالہ) کی حیثیت سے یا مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار میں لگاتے ہیں ۔نفع سے (وکالہ کی شکل میں )اپنی فیس یا (مضاربہ کی شکل میں ) اپنا حصہ الگ کر کے نفع میں حاصل شدہ باقی رقم دوبارہ پول میں ہی جمع کر دیا جاتا ہے۔
٭کمپنی لوگوں کو پالیسی حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اورجو لوگ پالیسی حاصل کرتے ہیں وہ اس کے ممبران شمار ہوتے ہیں ۔
٭پالیسی حاصل کرتے وقت خواہش مند اپنی اَغراض پیش ِ نظر رکھتے ہیں ، کسی کا