بنیاد وقف کی بجائے تبرع پر تھی، مگر اس کو وقف کی بنیاد پر قائم تکافل کمپنیوں کے مفتیان کرام جائز نہیں سمجھتے۔
بعض تحقیق طلب مسائل
مروجہ اسلامی انشورنس میں ایلوکیشن اور ایڈمن فیس کے نام پر وصولی بھی غور طلب پہلو ہے، جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں کہ پہلے سال قسط کی ۸۷ فیصد (زیادہ سے زیادہ) دوسرے سال ۲۰ فیصد، جب کہ تیسرے سال ۱۰ فیصد رقم ایلوکیشن فیس کے نام پر کاٹ لی جاتی ہے۔یہ ساری رقم کنسلٹنٹ جو گاہک گھیر کر لاتا ہے اور برانچ ذمہ داران کی جیبوں میں جاتی ہے اور پالیسی ہولڈروں کو اس کا علم تک نہیں ہوتا۔
یہ بالکل وہی طریقہ ہے جو روایتی انشورنس کا ہے کہ پہلی قسط کا معتد بہٖ حصہ انشورنس کمپنی کے ایجنٹ کو دے دیا جاتا ہے، جب نام نہاد اسلامی انشورنس نظریاتی مرحلہ میں تھی،تب یہ کہا جاتا تھا کہ روایتی انشورنس میں یہ ظلم ہوتا ہے کہ پہلی قسط تقریباً پوری کی پوری ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے، جب کہ تکافل میں یہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب عملی مرحلہ آیا تو نام نہاد اسلامی انشورنس نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا۔ ہمارے خیال میں یہ پالیسی ہولڈر کے ساتھ زیادتی ہے، وہ اس طرح کہ اگر وہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد تکافل کمپنی کو الوداع کہتا ہے تو قواعد و ضوابط کے مطابق اس کو صرف وہ رقم ملتی ہے جو انوسٹمنٹ کھاتے میں جمع ہو یا پھر اس سے حاصل ہونے والا نفع۔ اب ستاسی فیصد تو ایلوکیشن کے نام پر پہلے ہی الگ کیا جا چکا ہے، باقی تیرہ فیصد بچا، اس میں سے آدھا وقف میں چلا گیاجو شرعاًواپس نہیں لیا جا سکتا۔ جو باقی رہ گیا اس میں سے ڈیڑھ فیصد مینجمنٹ اور ۶۵ سے لے کر ایک سود س تک ماہانہ ایڈمن فیس بھی لی جاتی ہے۔ پالیسی ہولڈر کے ہاتھ اس کے سوا کیا آیا کہ تکافل کمپنی کے تنخواہ دار شریعہ بورڈ کے مفتیان کرام کا ایک عدد فتویٰ اور اس کے نتیجے میں اسلام کے نظامِ تکافل