ہم کہتے ہیں
صمدانی صاحب نے یہاں بھی وہی کام کیا ہے کہ معاملہ کے حصے بخرے کئے اور پھر ہر حصہ کی جائز ہونے کو مثال سے ذکر کر دیا، معاملہ کی جو مجموعی صورت ہے، اس پر نظر کرنے پر وہ آمادہ ہی نہیں ہیں ، حالاں کہ یہاں اصل تو مجموعی صورت ہی ہے۔
دیکھئے صمدانی صاحب نے تبرع کی یہ مثال دی ہے کہ کسی شخص نے آپ کو سو روپے ہدیے کے طور پر دیے، پھر کسی موقع پر آپ کی اس سے ملاقات ہو ئی تو آپ نے دو سو روپے ہدیے کے طور پر دیے تو یہ نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ ہو گا۔ اس مثال سے صمدانی صاحب نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تکافل میں بھی تبرع ہوتا ہے اس لیے وہ جائز ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ صمدانی صاحب کی یہ مثال تکافل کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ۔ اس کی مثال تو یوں بنتی ہے کہ زید بکر سے کہے کہ تم مجھے سو روپے ہدیہ کرو گے، تو وسائل ہونے کی صورت میں کبھی تمہیں ضرورت پڑی تو میں تمہیں دس ہزار روپیہ دوں گا۔ اس کوکون محض عقدِ تبرع کہے گا؟ اور عقدِ معاوضہ نہ سمجھے گا۔ پھر جب کہ وقف فنڈ اور تکافل کمپنی قانونی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور ان کے قواعد وضوابط اور اغراض و مقاصد کو قانونی حیثیت حاصل ہے تو یہ پختہ عقدِ معاوضہ بنے گا۔
عملی خرابیاں
۱۔ کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے۔
تکافل کمپنی لکھتی ہے۔
The Company shall act a Mudarib for the purpose of managing the